Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 110
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
لَا يَزَالُ : ہمیشہ رہے گی بُنْيَانُھُمُ : ان کی عمارت الَّذِيْ : جو کہ بَنَوْا : بنیاد رکھی رِيْبَةً : شک فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلَّآ : مگر اَنْ تَقَطَّعَ : یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور یہ عمارت جو انھوں نے بنائی ان کے دلوں میں شک کی بنیاد بن کر جمی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ جاننے والا اور حکم والا ہے۔
لاَ یَزَالُ بُنْیَا نُھُمُ الَّذِیْ بَنَوْارِیْبَۃً فِیْ قُلُوْ بِہِمْ اِلآَّ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْ بُہُمْ ط وَاللّٰہُ عَلْیِمٌ حَکِیْمٌ (التوبہ : 110) ( اور یہ عمارت جو انھوں نے بنائی ان کے دلوں میں شک کی بنیاد بن کر جمی رہے گی۔ مگر یہ کہ ان کے دل ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ ) قرآن پاک کا اسلوب یہ ہے کہ وہ بڑے سے بڑے کافر اور منافق کو بھی آخر حد تک نصیحت کرتا اور ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ مخاطب کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرے۔ ہاں البتہ کبھی کبھی آنحضرت ﷺ کی تسلی کے لیے بعض دلوں پر مہر لگائے جانے کی طرف اشارہ کردیتا ہے۔ لیکن یہاں صاف صاف فرمایا گیا ہے کہ ممکن تھا کہ ان کے نفاق کی اصلاح ہوجاتی لیکن انھوں نے مسجد کا مقدس نام لے کر جس طرح اسلام کے خلاف ایک اڈہ اور مرکز بنانے کی حرکت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا نفاق بڑھتے بڑھتے حق کے مقابلے میں آکھڑا ہوا ہے۔ اب ان کے دلوں میں قبولیت ِ حق کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ان کے دلوں کے ریشے ریشے میں نفاق اتر گیا ہے۔ اَ ب تو ایک ہی صورت ہے کہ ان کے دلوں کو پاش پاش کر کے نفاق کو نکالا جائے اور از سر نو دلوں میں قبولیت ِ حق کا مادہ پیدا کیا جائے۔ یہ ایک ایسا محال امر ہے جس کا اللہ کے تکوینی اور تشریعی قانون میں کوئی امکان نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ منافقین ہمیشہ کے لیے ایمان سے محروم کر دئے گئے ہیں۔
Top