Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 4
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْئًا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا تھا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) ثُمَّ : پھر لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ : انہوں نے تم سے کمی نہ کی شَيْئًا : کچھ بھی وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا : اور نہ انہوں نے مدد کی عَلَيْكُمْ : تمہارے خلاف اَحَدًا : کسی کی فَاَتِمُّوْٓا : تو پورا کرو اِلَيْهِمْ : ان سے عَهْدَهُمْ : ان کا عہد اِلٰى : تک مُدَّتِهِمْ : ان کی مدت اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
مگر وہ مشرک جن سے تم نے معاہدے کیے اور انھوں نے اس میں نہ تم سے کوئی خیانت کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْئًا وَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْآ اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ اِلٰی مُدَّ تِھِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (التوبۃ : 4) (مگر وہ مشرک جن سے تم نے معاہدے کیے اور انھوں نے اس میں نہ تم سے کوئی خیانت کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کروکیون کہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے) نقضِ عہد نہ کرنے والوں سے ایفائے عہد کرو گزشتہ آیت نمبر دو (2) سے یہ معلوم ہوا کہ عرب کے جن قبیلوں نے معاہدے کیے لیکن اس کی پابندی کبھی نہ کی اور وہ قبیلے جو مسلمانوں کے ساتھ کسی معاہدے میں شریک نہیں تھے۔ ان سب کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ وہ عرب میں چل پھر لیں اپنے معاملات درست کرلیں اور آئندہ کے لیے کسی فیصلے تک پہنچ جائیں۔ لیکن انھیں قبائل میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے نبی کریم ﷺ سے معاہدے کیے اور پھر نہ تو انھیں توڑا اور نہ کبھی کسی مسلمانوں کے دشمن کی درپردہ مدد کی۔ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہے اور ہمیشہ معاہدے کی پاسداری کی۔ ان کے بارے میں حکم دیا جارہا ہے کہ ان کے معاہدوں کی مدت پوری کی جائے۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ معاہدے کی پابندی کرنے والوں سے مراد بنو ضمرہ اور بنو مدلج تھے۔ انھوں نے کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی یا مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی۔ ان کے معاہدے کی باقی مدت نو مہینے تھی۔ اس لحاظ سے انھیں مزید نو (9) مہینے یعنی رمضان دس (10) ہجری تک جزیرہ عرب میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن اس مدت کے گزرنے کے بعد ان کے لیے بھی وہی حکم تھا جو باقی عربوں کے لیے تھا کیونکہ ان کے ساتھ جو معاہدات کیے گئے تھے وہ اس لیے تھے تاکہ اسلام کی دعوت کے لیے آسانیاں پیدا ہوں اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانا کسی رکاوٹ کے بغیر ممکن ہو۔ لیکن جب دعوت الی اللہ سے آگے بڑھ کر غلبہ دین اور اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کا وقت آگیا تو ان معاہدات کی ضرورت ختم ہوگئی۔ لیکن اسلام چونکہ بغیر کسی شرعی مجبوری کے معاہدے کی مدت ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتا اس لیے حکم دیا گیا کہ تم معاہدے کی مدت پوری کرو۔ لیکن اس کے بعد ان قبیلوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب ان کی زندگی کی بقا کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اسلام کی آغوش میں آجائیں۔ اہل کتاب کی طرح ذمی بن کر رہنے کی ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں کیونکہ ان پر جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں پوری طرح اتمامِ حجت ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو نہ تو ان کے معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ان سیتعرض کرنے کی اجازت ہے اور نہ وہ ان پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح مدت ختم ہوجانے کے بعد ان کو سابقہ رویے کی وجہ سے کسی رعایت دینے کی بھی اجازت نہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوگا جو باقی عربوں کے ساتھ ہوگا اور مسلمان کو ہرحال میں اللہ سے ڈرنا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے۔
Top