Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 4
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْئًا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا تھا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) ثُمَّ : پھر لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ : انہوں نے تم سے کمی نہ کی شَيْئًا : کچھ بھی وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا : اور نہ انہوں نے مدد کی عَلَيْكُمْ : تمہارے خلاف اَحَدًا : کسی کی فَاَتِمُّوْٓا : تو پورا کرو اِلَيْهِمْ : ان سے عَهْدَهُمْ : ان کا عہد اِلٰى : تک مُدَّتِهِمْ : ان کی مدت اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
البتہ جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اور انہوں نے اسے پورا کرنے میں کوئی کمی نہ کی ہو اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو مقررہ مدت تک ان سے عہد پورا کرو کہ اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
مشرکوں سے سختی اور رعایت تشریح : جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ 10 رمضان 8 ہجری کو نبی کریم ﷺ مدینہ سے مکہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور مکہ بغیر خون بہائے اور جنگ کے فتح کرلیا گیا۔ ذی الحجہ 9 ھ کو اعلان عام کردیا گیا کہ قبائل عرب سے تمام معاہدات ختم کیے جاتے ہیں کیونکہ عہد شکنی کی ابتدا قریش مکہ کی طرف سے ہوئی تھی۔ یہاں بھی مسلمانوں کی اخلاقی سر بلندی کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ اس طرح کہ حکم الٰہی یوں دیا جا رہا ہے کہ مکہ کے اطراف میں رہنے والے غیرمسلموں کو جان و امال کی امان دی گئی۔ ان غیرمسلموں کی چار قسمیں تھیں۔ ایک تو وہ جنہوں نے حدیبیہ کا معاہدہ توڑا۔ دوسرے وہ جن سے خاص مدت تک کے لیے معاہدہ کیا گیا تھا اور وہ اس پر قائم تھے۔ تیسرے جن سے بغیر مدت معین کے معاہدہ کیا گیا تھا۔ چوتھے وہ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ کیا گیا تھا۔ اسلام کے اصول رحم و کرم اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں اسی لیے چاروں قسم کے گروہوں کو علیحدہ علیحدہ سہولتیں دی گئیں۔ جن مشرکوں نے عہد کی پابندی کی اور کسی طرح سے مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچایا ان سے عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا۔ عہد پورا کرنا پرہیزگار اور سچے مسلمان کی نشانی ہے ایسے ہی لوگ اللہ کے مقبول ترین لوگ ہوتے ہیں۔ پھر یہ حکم الٰہی ہے کہ جب بھی کسی وجہ سے عہد منسوخ کرنا ہو تو باقاعدہ اعلان کرکے عہد منسوخ کرو۔ پھر مزید سہولت مشرکین کو یہ دی گئی کہ یکدم ان کو مکہ سے نکل جانے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ یہ اعلان کیا گیا کہ چار مہینے تم کو دیے جاتے ہیں اپنا مناسب بندوبست کرلو کیونکہ بہرحال مکہ کو مشرکوں سے پاک کرنا ہے۔ ان تمام رعایتوں اور سہولتوں کے بعد پھر سخت اقدامات کا حکم ہے، یعنی جہاں بھی تم ان کو پائو قتل کر دو ۔ اگر گھیرائو میں آجائیں تو ان کو قید کرلو۔ اچھی طرح ان کو گھیر کر قابو کرلو اور ہر صورت ان کو اچھی طرح ڈھونڈو۔ اس حکم سے بتانا یہ مقصود ہے کہ رحم و کرم اور اخلاق و اصول اپنی جگہ ہیں لیکن جب کسی قوم سے جنگ چھڑ جائے تو پھر پوری قوت سے ان کا صفایا کرنا چاہیے ایسے وقت میں رحم دلی بزدلی کہلاتی ہے۔ دوسری بات جو اللہ کے قانون کا کفر کرے وہ زمین میں عزت کی زندگی بسر نہیں کرسکتا، پھر حکم ہوا کہ اگر کوئی شخص تم سے امان چاہے تو اسے قرآن و حدیث اور اللہ کے بارے میں بتائو، سمجھائو اور اگر وہ نہ مانے تو اس کو باحفاظت اس کی جگہ پر پہنچا دو ۔ اور اگر ایمان لے آئے تو پھر پرکھ لو کیونکہ اس کا ایمان لانا تین چیزوں پر ہے۔ پہلا تو یہ سچی توبہ، دوسرا اقامت نماز اور تیسرا ادائے زکوٰۃ۔ یہ تینوں عمل اگر وہ مشرک کرنے لگے تو اس کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ اب وہ مسلمانوں میں شامل ہوگیا۔ اور جو ایمان لائے تو ٹھیک ہے اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ان کے گناہوں کو اللہ رب العزت معاف کر دے گا۔ کیونکہ بیخبر ی اور لاعلمی میں جو کچھ ہوگیا وہ قابل معافی ہے اور پھر توبہ تو ہر صورت قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ پھر آخر میں یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ دارالاسلام میں بغیر کسی خاص معاہدہ یا ضرورت کے ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر وہ اللہ کا راستہ چاہے تو اس کی مدد کی جائے کلام اللہ سنایا جائے اگر کسی دوسرے مقصد کے لیے آئے تو مقصد پورا ہونے کے بعد پوری حفاظت سے اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچا دیا جائے۔ اس کو ہم ویزا کہہ سکتے ہیں۔
Top