Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 35
فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ
فَاَخْرَجْنَا : تو نکال لیا ہم نے مَنْ كَانَ فِيْهَا : جو کوئی اس میں تھا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں میں سے
پس اس بستی میں جتنے اہل ایمان تھے ان کو ہم نے نکال دیا
فَاَخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیْھَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْن۔ فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ وَتَرَکْنَا فِیْھَـآ اٰیَـۃً لِّـلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ۔ (الذریٰت : 35 تا 37) (پس اس بستی میں جتنے اہل ایمان تھے ان کو ہم نے نکال دیا۔ اور وہاں ہم نے بجز ایک گھر کے کسی کو مسلم نہیں پایا۔ اور اس میں ہم نے ایک بڑی نشانی چھوڑی ان لوگوں کے لیے جو عذاب الیم سے ڈرتے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض حقائق کا اظہار اوپر کی آیت پر فرشتوں کی بات ختم ہوگئی۔ اگرچہ وہ ارشادات پروردگار ہی کے ہیں لیکن ان کی نسبت فرشتوں کی طرف ہے۔ اس کے بعد کی سرگزشت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جس میں بعض حقائق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں پہلی بات یہ ہے کہ جب ہم کسی قوم پر عذاب بھیجتے ہیں تو ان میں جو اللہ تعالیٰ کے رسول اور ان پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں ہم ان کو وہاں سے نکال لیتے ہیں اور کسی محفوظ مقام پر منتقل کردیتے ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں پر عذاب نازل کیا جاتا ہے جو اپنی بداعمالیوں کے باعث عذاب کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں اور پھر ان کی جڑ اکھاڑ دی جاتی ہے۔ دوسری آیت میں یہ حقیقت واشگاف فرمائی گئی ہے اور اس پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) جن لوگوں کی طرف مبعوث کیے گئے تھے ان میں سوائے ایک گھر کے جو حضرت لوط ہی کا گھر تھا ہم نے کسی کو مسلمان نہیں پایا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کسی قوم کا زوال انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی تبلیغ و دعوت اس راستے میں اس کی جاں فشانی اور اس کا سوز و گداز بھی بےاثر ثابت ہوئے ہیں۔ یعنی وہ آواز جو پتھروں میں شگاف ڈال دیتی ہے وہ ان سنگدلوں میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے تبلیغ و دعوت سے اتمامِ حجت نہیں کردیتے اور یہ کام اس انتہا کو نہیں پہنچ جاتا جس میں یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہ راستہ بالکل بند ہوگیا ہے۔ یا لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلانے والوں کی زندگیوں کے درپے ہوجائیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے۔ مزید ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ان دو آیات میں مومن اور مسلم کے الفاظ آئے ہیں۔ کوئی شخص بھی غور کرنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں کے مصداق الگ الگ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة حجرات میں مومن اور مسلم میں جو فرق کیا گیا وہ خاص حالات کی وجہ سے اور یا لغوی معنی کے اعتبار سے ہے۔ اصطلاحی طور پر ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ تیسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قوم لوط کی بستی میں ہم نے ایک نہایت واضح نشانی ان لوگوں کی عبرت پذیری کے لیے چھوڑی ہے جو اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کے قہر و غضب کی نشانیاں دیکھنا اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس نشانی سے مراد کیا ہے ؟ صاحب تفہیم القرآن کی تحقیق اس حوالے سے نہایت قابل قدر ہے۔ اس نشانی سے مراد بحیرہ مردار Dead Sea ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کررہا ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرہ ٔ مردار کا پانی پھیل گیا تھا، کیونکہ اس بحیرے کا وہ حصہ جو ” اللِّسان “ نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرہ مردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیم اور حضرت لوط (علیہما السلام) کا زمانہ ہے۔ 1965 ء میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو اللّسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ قبریں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد رہا ہوگا۔ مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن سکتا ہو۔ اس سے بھی یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرے میں غرق ہوچکا ہے۔ بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں جنھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی۔
Top