Tafseer-e-Saadi - Az-Zukhruf : 9
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُۙ
وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ : اور البتہ اگر تم پوچھو ان سے مَّنْ : کس نے خَلَقَ السَّمٰوٰتِ : پیدا کیا آسمانوں کو وَالْاَرْضَ : اور زمین کو لَيَقُوْلُنَّ : البتہ وہ ضرور کہیں گے خَلَقَهُنَّ : پیدا کیا ان کو الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ : زبردست۔ غالب، علم والے نے
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو کہہ دیں گے کہ ان کو غالب اور علم والے (خدا) نے پیدا کیا ہے
آیت 9 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے بارے میں فرماتا ہے : (ولئن سالتھم من خلق المسوت والارض لیقولن) ”(اگر) آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقیناً وہ کہیں گے۔ “ ان کو اللہ وحدہ لاشریک نے پیدا کیا جو غلاب ہے جس کے غلبہ کے سامنے اولین و آخرین تمام مخلوقات اپنے ظاہر و باطن کے ساتھ سرنگوں ہے۔ جب وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ اللہ کا بیٹا، اس کی بیوی اور اس کے شریک کیسے ٹھہراتے ہیں ؟ اور ان ہستیوں کو اس کا شریک کیوں کر قرار دیتے ہیں جو پیدا کرسکتی ہیں نہ رزق عطا کرسکتی ہیں اور نہ زندگی اور موت ان کے اختیار میں ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دلائل کا بھی ذکر کیا جو اس کی کامل نعمت و اقتدار پر دلالت کرتے ہیں، زمین کی اشیاء کو دلیل بنایا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیں، اس زمین کو بندوں کے لئے ٹھکانا بنایا جہاں وہ ہر اس چیز پر متمکن ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ (وجعل لکم فیھا سبلاً ) ” اور اس میں تمہارے لئے راستے بنا دیے۔ “ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے پہاڑی سلسلوں کے درمیان گزر گاہیں بنئایں جہاں سے گزر کر تم ان پہاڑوں کے پاس واقع ممالک کو جاتے ہو (لعلکم تھتدون) تاکہ تم ان راستوں پر سفر کے دوران راؤ پاؤ اور گم نہ ہوجاؤ اور تاکہ تم اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرو۔ (والذین نزل من السمآء مآء بقدر ) ” اور وہ ذات جس نے آسمان سے پانی اتارا اندازے کے ساتھ۔ “ وہ اس پانی میں کمی بیشی نہیں کرتا، نیز پانی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے، یہ پانی کمی نہیں ہوتا کہ فائدہ مفقود ہوجائے اور نہ اتنا زیادہ ہوتا ہے جس سے انسانوں اور زمین کو نقصان پہنچے بلکہ اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے سے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اور اس کے ذریعے سے زمین کو سختی سے بچاتا ہے، اس لئے فرمایا : (فانشرنا بہ بلدۃ فیتاً ) یعنی ہم نے زمین کو اس کے بنجر ہوجانے کے بعد زندہ کیا۔ (کذلک تخرجون) یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذریعے سے بنجر اور مردہ زمین کو زندہ کیا اسی طرح جب تم اپنے برزخ کے مرحلے کو پورا کرلو گے، تو وہ تمہیں زندہ کرے گا اور تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ والذی خلق الازواج کلھا) ” اور وہ ذات جس نے تمام چیزوں کے جوڑے پیدا کئے۔ “ یعنی وہ تمام اصناف جو زمین سے اگتی ہیں، خود ان کی ذات میں سے اور ان تمام اشیاء میں سے جن کا انہیں علم نہیں، مثلاً : رات دن، گرمی سردی اور مذکر مؤنث وغیرہ میں سے۔ (وجعل لکم من الفلک) ” اور تمہارے لئے کشتیاں بنائیں۔ “ یعنی تمام بادبانی اور دخانی کشتیاں جن پر تم سوار ہوتے ہو (والانعام ماترکبون، لتستوا علی ظھورہ) ” اور چوپائے بھی جن پر تم سوار ہوتے ہوتا کہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو۔ “ اور یہ آیت کشتیوں کی پشت اور مویشیوں کیپیٹھ کو شالم ہے، یعنی ات کہ تم ان سواریوں کی پیٹھ پر استقرار پکڑو۔ (ثم تذکروا نعمۃ ربکم اذا استویتم علیہ) پھر جب تم ان پر ٹھیک طرح سے بیٹھ جاؤ اس نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس ہستی کا ذکر کرو جس نے ان کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے۔ بنا بریں فرمایا : (آیت) ” وتقولوا سبحن الذین سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین) اور کہو، اگر اللہ تعالیٰ نے ان کشتیوں اور مویشیوں کو ہمارے لئے مسخر نہ کیا ہوتا تو ہم ان کو مسخر کرنے کی طاقت اور قدرت نہیں رکھتے تھے یہ محض اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے ان سواریوں کو ہمارے لئے مسخر کیا اور ان کے اسباب مہیا کئے۔ اس سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ رب جو مذکورہ اوصاف سے متصف ہے جس نے بندوں پر ان نعمتوں کا فیضان کیا ہے وہی اس چیز کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اس کی نماز پڑھی جائے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوا جائے۔
Top