Siraj-ul-Bayan - Maryam : 75
قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ فَلْیَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا١ۚ۬ حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَ١ؕ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا
قُلْ : کہہ دیجئے مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الضَّلٰلَةِ : گمراہی میں فَلْيَمْدُدْ : تو ڈھیل دے رہا ہے لَهُ : اس کو الرَّحْمٰنُ : اللہ مَدًّا : خوب ڈھیل حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب رَاَوْا : وہ دیکھیں گے مَا يُوْعَدُوْنَ : جس کا وعدہ کیا جاتا ہے اِمَّا : خواہ الْعَذَابَ : عذاب وَاِمَّا : اور خواہ السَّاعَةَ : قیامت فَسَيَعْلَمُوْنَ : پس اب وہ جان لیں گے مَنْ : کون هُوَ : وہ شَرٌّ مَّكَانًا : بدتر مقام وَّاَضْعَفُ : اور کمزور تر جُنْدًا : لشکر
تو کہہ جو گمراہی میں ہے ، سو چاہئے کہ رحمن اسے (گمراہی میں) لمبا کھینچے ، یہاں تک کہ جب دیکھیں گے وہ چیز جس کا وعدہ کیا جاتا ہے ، (یعنی) یا عذاب ، اور یا قیامت ، تب جانیں گے کہ کون رتبہ میں برا اور فوج میں کمزور تھا (ف 1) ۔
1) کفار مکہ کے سامنے جب اللہ کی واضح تین آیتیں پڑھی ہوئیں اور ان کو اسلام کی طرف رعیت دی جاتی تو وہ کہتے کہ ہمارے لئے اسلام کیونکر خیروبرکت کا سبب ہو سکتا ہے ، جب کہ تم خود اچھی حالت میں نہیں ہو ، تم مفلس ہو ، کمزور وناتوان ہو ، اور ہمیں اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے ، ہماری حیثیت تم سے کہیں بلند ہے ہم شان و شوکت اور نام ونمود کے لحاظ سے تم سے بہت بڑھ کر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کوتاہ نظر ہو ، تمہاری نگائیں ہمیشہ واقعات کی سطح پر رہتی ہیں ، تم نے کبھی اقوام کی تاریخ اٹھا کر دیکھی ہے ؟ تم نے کبھی قوموں کے عروج وزوال کی داستان سنی ہے اور تم نے کبھی کوشش کی ہے ، کہ ان تباہیوں اور ہلاکتوں کے اسباب تک پہنچو جن وجہ سے بڑے بڑے جابر وقت کی نیند سو گئے ، تو اپنی ظاہر حالت پر مغرور ہو ، تھوڑی سی پونجی اور دولت پر تماہرے گھمنڈ کا یہ عالم ہے کہ حق کی آواز کو ٹھکرا رہے ہو ، تم نہیں جانتے ہو کہ بہت سی قومیں اس دنیا میں شان و حشمت کے ساتھ نمودار ہوئیں اور بالآخر رسوائی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفحہ دہر سے مٹ گئیں ، آج ان کا نشان تک نہیں ملتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے ظاہری ٹھاٹ پر اتنا بھروسہ کیا ، کہ اللہ کے فرامین کو بھول گئے ، اور اللہ کے بندوں کو محض اس لئے حقیر و ذلیل سمجھا کہ ان کے پاس دولت ایمان کے ساتھ سیم وزر کے انبار کیوں موجود نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم جلد باز اور مستعجل نہیں ، گنہگار کو سنبھلنے ، اور اصلاح اعمال کا پورا پورا موقع عنایت فرماتے ہیں ، اس کے آرام و آسائش میں یکایک مداخلت نہیں کرتے ، اور نہیں چاہئے کہ بغیر انتباہ اس کو تباہ کردیں مگر انسان کہ از راہ کج فہمی اس ڈھیل کو جو ہماری رحیمیت پر مبنی ہے اپنی لئے گناہی اور صداقت شعاری پر محمول کرتا ہے ، اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر اس کی سرکشیاں اسی طرح باقی رہیں ، اور اصلاح کے مواقع سے اس نے استفادہ نہ کیا تو اللہ کا عذاب اس کو آگھیرے گا ، یا قیامت میں جب اس کو عمدہ ٹھکانا نہ ملے گا ، اور کوئی یار و مددگار یاوری نہ کرسکے گا تب اس کو محسوس ہوگا کہ پاکباز اور مسکین مسلمان آج مجھ سے کہیں زیادہ حیثیت میں ہے ۔
Top