Siraj-ul-Bayan - Al-Baqara : 56
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تمہیں پھر اٹھا کھڑا کیا شاید کہ تم شکر کرو (ف 1) ۔
1) بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں جس خدا کی طرف تو بلاتا ہے ‘ وہ بالمشافہ دکھا ، تاکہ ہم دیکھ کر اس پر ایمان لائیں ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کے متعلق نہایت ہی ناقص فہم کا تخیل رکھتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ خدا بھی انسانوں کی طرح مجسم ہے اور اسے دیکھا جاسکتا ہے ، اس مطالبہ کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ متواتر ومسلسل بت پرستی کی وجہ سے وہ مشاہدات سے زیادہ مرغوب تھے اور کوئی تنزیہی تخیل جو بالا از تجربہ واحساس ہو ‘ انہیں اپنی طرف جذب نہ کرسکتا تھا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدائے تعالیٰ کی توحید کی جانب ان کو ملتفت کرنا چاہا تو وہ اکڑ گئے کہ جب تک خدا کو صورت تمثال کے رنگ میں نہ دیکھ لیں گے نہ مانیں گے ، موسیٰ (علیہ السلام) ہرچند اس ضد کی معقولیت کو سمجھتے تھے تاہم بطور اتمام حجت کے ان کے چند آدمیوں کو لے کر پیش گاہ جبروت میں حاضر ہوگئے ، وہاں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و حشمت کا ادنی سا اظہار فرمایا تو عقل و حواس کی دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی ، ابھی حریم اقدس ونور کے چند پردے ہیں چاک ہوئے تھے کہ قلب و دماغ کا توازن کھو بیٹھے اور موت آگئی ، اس کے بعد اللہ کے فضل سے وہ سنبھلے ، جان میں جان آئی تو فرمایا ، جاؤ خدا کا شکریہ ادا کرو ، عقل و استعداد کو کام میں لاؤ اور خدائے قدوس پر غائبانہ ایمان رکھو ۔
Top