Siraj-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 153
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْوٗنَ عَلٰۤى اَحَدٍ وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا مَاۤ اَصَابَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
اِذْ : جب تُصْعِدُوْنَ : تم چڑھتے تھے وَلَا تَلْوٗنَ : اور مڑ کر نہ دیکھتے تھے عَلٰٓي اَحَدٍ : کسی کو وَّالرَّسُوْلُ : اور رسول يَدْعُوْكُمْ : تمہیں پکارتے تھے فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ : تمہارے پیچھے سے فَاَثَابَكُمْ : پھر تمہیں پہنچایا غَمًّۢا بِغَمٍّ : غم کے عوض غم لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَحْزَنُوْا : تم غم کرو عَلٰي : پر مَا فَاتَكُمْ : جو تم سے نکل گیا وَلَا : اور نہ مَآ : جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پیش آئے وَاللّٰهُ : اور اللہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم کرتے ہو
اور جب تم (شکست کھا کر پہاڑ پر) چڑھے جاتے تھے اور پیچھے مڑ کر کسی کو نہ دیکھتے تھے اور رسول ﷺ تم کو تمہارے پیچھے سے پکار رہا تھا ، پھر خدا نے تمہیں غم پر غم کا بدلہ دیا ، یہ اس لئے ہوا کہ تم اس چیز کا جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس تکلیف کا جو تمہیں پہنچی غم نہ کھاؤ اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے (ف 1)
عصیاں رسول ﷺ کا نتیجہ : (ف 1) احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ضعیف ال ایمان لوگ ڈگمگا گئے ، انہیں شک نے آگھیرا کہ خدا نے جو نصرت واعانت کا وعدہ کیا تھا ‘ وہ پورا نہیں ہوا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا کا وعدہ سچا ہے ، اس میں کبھی تخلف نہیں ہوا ، کیا تم نے جب تک پارس اطاعت کو ملحوظ رکھا ، کامیاب نہیں رہے ؟ اولا تو ایسا ہوا کہ مسلمان مخالفین پر چھا گئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میدان حرب اب انہیں کا حصہ ہے ، وہ لوگ جنہیں حضور ﷺ نے تیر اندازی کے لئے درہ پر متعین کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ آخر تک تم یہیں رہنا ۔ ان میں بعض لوگ غنیمت کے لالچ ہیں ایک ہوگئے اور لگے مال غنیمت لوٹنے ، خالد بن ولید ؓ نے جو اس وقت کفار کے لشکر کے سردار تھے ، اور درہ کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے حضور ﷺ کی اطاعت ترک کردی اور دنیا طلبی کے جذبہ سے متاثر ہو کر مال و دولت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے ، یہ درست ہے کہ نصرت کا وعدہ تھا ، اور یہ بھی درست ہے کہ وعدہ کو ہر حال میں پورا ہونا چاہئے مگر یہ تو سوچئے ، وعدہ کن سے تھا ، کیا وعدے کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں تھے جو ہر حال میں فرمودہ رسول ﷺ کو قابل اتباع سمجھیں ، اس صورت حال میں ظاہر ہے کہ منافقین کا اعتراض بالکل لغو ہوجاتا ہے ، (آیت) ” ولقد عفاعنکم “ کے معنی یہ ہیں کہ آکر مسلمانوں کو اپنی اس نافرمانی کا احساس ہوا اور وہ بارگاہ ایزدی میں توبہ کے لئے جھک گئے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ، اس لئے کہ اس کا شیوہ ہی عفو ورحم ہے ، اس آیت کے بعد بھاگنے والوں پر کوئی الزام نہیں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا تو ہم اعتراض کرنے والے کون ؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں شرف صحبت حاصل ہے ۔ جنہوں نے براہ راست انوار و تجلیات نبوی کا مشاہدہ کیا ہے اور جمال یار کو بالمشافہ دیکھا ہے ، اس لغزش بشری پر انہیں موردالزام محض الحاد ہے ، وہ آنکھیں جو بعقیدت چہرہ اقدس کو دیکھتی رہی ‘ وہ کبھی محروم دیدار نہیں رہیں گی ، اس کے بعد بھ اگر کا نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح تم بھاگے چلے جاتے تھے ، فرط بدحواسی میں تم نے رسول ﷺ کی آواز کو بھی نہیں سنا ، وہ تمہیں (آیت) ” الی عباد اللہ “ کی پکار سے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا اور تم تھے کہ بھاگے چلے جا رہے تھے ، تمہاری ان غلطیوں کا خمیازہ آلام وہموم تھے جن سے تمہیں دو چار ہونا پڑا ، تم نے دیکھا کہ تمہارے سامنے کئی مسلمان جام شہادت پی گئے ، حضور ﷺ کے چہرہ اقدس کو لہولہان کردیا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ مشہور کردیا گیا کہ حضور ﷺ شہید ہوگئے ہیں ۔ یہ سب کچھ صرف اس لئے ہوا کہ تم جادہ اطاعت رسول ﷺ سے الگ ہوگئے اور تم نے پیغمبر خدا ﷺ کی ہدایات کی پروا نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ فتح ونصرت تو محض رہن اطاعت رسول ﷺ ہے ۔ حل لغات : تصعدون : اصفاد فی الارض کے معنی ہیں ۔ اوپر کی طرف چڑھے چلے جانا ۔
Top