Tadabbur-e-Quran - Yunus : 66
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا یَتَّبِعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَنْ : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا : کیا۔ کس يَتَّبِعُ : پیروی کرتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ يَدْعُوْنَ : پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ شُرَكَآءَ : شریک (جمع) اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : وہ نہیں پیروی کرتے اِلَّا : مگر الظَّنَّ : گمان وَاِنْ : اور نہیں ھُمْ : وہ اِلَّا : مگر (صرف) يَخْرُصُوْنَ : اٹکلیں دوڑاتے ہیں
سن رکھو کہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین ہیں سب اللہ ہی کے ہیں اور جو لوگ اللہ کے ماسوا کو پکارتے ہیں یہ شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے ہیں بلکہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور اٹکل کے تیر تکے چلاتے ہیں
66۔ 70:۔ اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ ۭ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَاۗءَ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۔ اوپر والی آیات جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا۔ بطور التفات تھی۔ اب توحید کے مضمون کو پھر لے لیا جو پیچھے سے چلا آرہا تھا۔ فرمایا کہ اچھی طرح کان کھول کر سن لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے، خواہ فرشتے یا جنات یا انسان، سب خدا ہی کی مخلوق اور اسی کے مملوک ہیں، ان میں سے کسی کا یہ درجہ نہیں کہ وہ خدا کی خدائی میں شریک وسہیم ہو تو جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ فی الحقیقت خدا کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے ہیں اس لیے کہ خدا کا تو کوئی شریک ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ لوگ محض اپنے گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور اٹکل کے تیر تکے چلا رہے ہیں۔ ظن کے لفظ پر ہم دوسرے مقام میں بحث کرچکے ہیں۔ یہاں اس سے مراد وہ بات ہے جس کی بنیاد نہ علم صحیح پر ہے نہ عقل و فطرت پر بلکہ مجرد و ہم خیال اور اٹکل پچو اندازوں پر ہے۔ ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ۔ اس آیت میں عربی زبان کا وہ اسلوب استعمال ہوا ہے جس میں مقابل الفاظ حذف کردیے جاتے ہیں اور جس کی متعدد مثالیں پچھلی سورتوں میں گزرچکی ہیں۔ اس حذف کو کھول دیا جائے تو پوری بات گویا یوں ہوگی۔ جعل لکم الیل (مظلما) لتسکنوا فیہ والنہار مبصرا (لتعلموا فیہ)۔ فرمایا وہی خدا ہے جس نے تمہارے لیے شب کو تاریک اور خنک بنایا کہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اس میں کام کرو۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ ، یعنی رات اور دن اس نوعیت کے سننے اور سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ یہاں نشانیوں کی وضاحت نہیں کی ہے لیکن قرآن کے دوسرے مقامات میں ان کی وضاحت موجود ہے۔ ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے۔ سب سے پہلے تو اس پر نگاہ کیجیے جو رات اور دن کے اندر باوجودیکہ وہ دونوں ضدین کی نسبت رکھتے ہیں، پایا جاتا ہے کہ دونوں مل کر انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ رات اس کے لیے راحت کا بستر بچھاتی ہے اور دن اس کے لیے سرگرمیوں کا میدان کھولتا ہے۔ یہی حال اس کائنات کے تمام اضداد کا ہے کہ وہ پوری وفاداری اور سازگاری کے ساتھ اپنے سے بالاتر مقصد کی خدمت میں سرگرم ہیں اور اس سے ذرا انحراف اختیار نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ ایک بالاتر اور حکیم ارادہ اس کائنات کے پورے نظام پر حاوی اور قاہر ہو اور وہ اس کے اجزائے مختلفہ میں ربط وتعلق پیدا کر کے اس کو اپنی حکمت کے تحت چلا رہا ہو۔ یہ اس توحید کی دلیل ہوئی جن کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے۔ دوسری چیز جو ظاہر ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کارخانۂ کائنات نہ کوئی اتفاقی حادثہ کے طور پر ظہور میں آجانے والی شے ہے اور نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشہ ہے بلکہ اس کے ہر گوشے میں عظیم قدرت، حیرت انگیز حکمت اور نہایت گہری غایت و مصلحت پائی جاتی ہے۔ یہ چیز مقتضی ہے کہ یہ دنیا نہ یوں ہی چلتی رہے، نہ یوں ہی تمام ہوجائے بلکہ ضروری ہے کہ یہ کسی عظیم غایت پر منتہی ہو اور یہ غایت بغیر اس کے پوری نہیں ہوسکتی کہ اس کے بعد آخرت کو تسلیم کیا جائے۔ تیسری چیز وہ ربوبیت کا نظام ہے جو اس کے ہر گوشے میں جلوہ گر ہے۔ ربوبیت مسئولیت کو مقتضی ہے۔ جس نے ہمارے لیے زندگی اور پرورش کا یہ سارا نظام قائم کیا ہے اس کا ہم پر فطری طور پر حق قائم ہوتا ہے اور لازم ہے کہ ایک دن اس حق کی بابت ہم سے پرسش ہو۔ نہوں نے اس حق کو پہچانا ہو وہ اس کا انعام پائیں اور جنہوں نے اس کی ناقدری کی ہو وہ اس کی سزا بھگتیں۔ اس اعتبار سے یہ جزا اور سزا کی دلیل ہوئی۔ یہاں جس طرح قرآن نے اشارے پر اکتفا کیا ہے اسی طرح ہم بھی اشارات پر اکتفا کرتے ہیں۔ دوسرے مقامات میں یہ سارے پہلو نہایت تفصیل سے زیر بحث آئے ہیں۔ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ لفظ " ولد " مذکر، مونث، جمع، مثنی سب کے لیے آتا ہے۔ جن لوگوں نے اس کو بیٹے کے معنی میں لیا ہے۔ ان کی بات زبان اور عرب کے عقائد دونوں کے خلاف ہے۔ یہاں عقائد مشرکین عرب کے زیر بحث ہیں اور مشرکین عرب کسی کو خدا کا بیٹا نہیں، مانتے تھے، وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ " سبحانہ "، یعنی یہ بات خدا کی صفات الوہیت کے منافی ہے کہ اس کے لیے اولاد مانی جائے اس لیے کہ جو اولاد ہوگی وہ خدا کی ذات کا ایک جزو اور اس کی مثیل ونظیر ہوگی اور یہ شرک فی الذات اور اس کی بےہمگی اور بےہمتائی کی نفی ہے۔ " ھو الغنی " یعنی خدا اس بات سے مستغنی ہے کہ اس کے اولاد ہو۔ آدمی کو اولاد کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ اس کی نسل کی بقا کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے کاروبار میں اس کی مددگار ہوتی ہے جب وہ بوڑھا ہوتا ہے تو اس کو سہارا دیتی ہے۔ خدا ان تمام ضروریات و حالات سے بالا برتر، مستغنی اور بےنیاز ہے۔ " لہ ما فی السموات وما فی الارض " آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے تو اس کو اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ ان عندکم من سلطن بہذا، سلطان کے معنی دلیل کے ہیں۔ یعنی تمہارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے بس یونہی خدا پر ایک تہمت جڑ رہے ہو۔ قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ۔ " فلاح " کا لفظ قرآن میں عاقبت کار کی کامیابی و سرخروئی کے لیے آتا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر شرک کی تہمت جوڑ رہے ہیں وہ عاقبت کار کی کامیابی سے محروم ہیں۔ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ۔ یعنی ان کے لیے بس اس دنیا کی زندگی میں چند روزہ نفع اٹھا لینے کی مہلت ہے۔ پھر سب کی واپسی ہماری طرف ہوگی اور ہم ان کے کفر کی پاداش میں ان کو اپنے عذاب سخت کا مزہ چکھائیں گے۔
Top