Tadabbur-e-Quran - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو دنیا کی زندگی اور اس کے سروسامان کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا بدلہ یہیں چکا دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی
15۔ 16:۔ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔ وسعت رزق کے مطالبہ کی تردید : اوپر آیت 12 میں کفار کے اس طعنہ کا حوالہ گزر چکا ہے کہ وہ نبی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی بےسروسامانی کو آپ کی رسالت کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ جب ہم دنیوی اسباب ووسائل کے اعتبار سے ان سے نہایت بہتر حالت میں ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی نگاہوں میں بھی ہم ان سے بہتر ہیں، پھر ہم کو خدا کے غضب اور اس کے عذاب سے ڈرانے کے کیا معنی ؟ اگر ہم خدا کے مبغوض و معتوب ہوتے تو کیا اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ یہ جوتیاں چٹخاتے پھرتے اور ہم عیش کرتے ؟ پھر تو یہ ہونا تھا کہ یہ خزانے لٹاتے اور ہم ان کی جوتیاں سیدھی کرتے۔ ان دنوں آیتوں میں ان کے اسی مغالطے کا جواب دیا ہے۔ فمایا کہ یہ دنیا اور اس کی زینتیں نیک اعمال کے سلہ کے طور پر نہیں ملتیں کہ جو نیک اعمال نہ کریں وہ ان سے محروم رہیں۔ یہ دنیا تو نیک اور بد دونوں کو ملتی ہے البتہ جو دنیا ہی کے طالب ہوتے ہیں، آخرت کی جن کو کوئی پروا نہیں ہوتی ان کا سارا کھاتا یہیں بےباق کردیا جاتا ہے، آخرت میں ان کے لیے دوزخ کے سوا کچھ نہیں بچ رہتا۔ چونکہ وہ کوئی کام آخرت کو مقصود بنا کر نہیں کرتے اس وجہ سے آخرت میں ان کے سارے اعمال حبط ہوجائیں گے۔ دنیا آخرت کے بغیر مجرد باطل رہ جاتی ہے اور اس باطل کو مقصود قرار دے کر جو کچھ بھی کیا جاتا ہے سب باطل ہوتا ہے اگرچہ وہ بظاہر نیکی ہی کے کام کیوں نہ ہوں۔ یہ مضمون قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے۔ " مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا (19) كُلا نُمِدُّ هَؤُلاءِ وَهَؤُلاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا (20): جو دنیا ہی کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کو یہیں دے دیتے ہیں جو دنیا چاہتے ہیں، پھر ہم نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ذلیل اور راندہ ہو کر پڑیں گے اور جو آخرت کے طالب بنتے ہیں اور ایمان و اخلاص کے ساتھ اس کے لیے اس کے شایان شان کوشش بھی کرتے ہیں، وہی لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہوگی، ہم تیرے رب کی بخشش سے دونوں کو فیض یاب کرتے ہیں، ان کو بھی اور ان کو بھی اور تیرے رب کی بخشش کسی پر بھی بند نہیں ہے " (اسراء :18۔ 20)۔ ان آیات میں، ما نشاء لمن نرید ، کے الفاظ سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ دنیا کے طالبوں کو بھی اتنا ہی ملتا ہے جتنا خدا چاہتا ہے اور انہی کو ملتا ہے جن کو خدا دینا چاہتا ہے۔ یہ نہیں کہ جو دنیا کا طالب بن جائے وہ جتنا چاہے سمیٹ لے۔ ان کے معاملے میں بھی جو کچھ ہوتا ہے خدا ہی کے اختیار اور اسی کی حکمت کے تحت ہوتا ہے۔ اسی طرح وسعی لہا سعیہا و ھو مومن، کے الفاظ یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ طلب آخرت بھی اللہ کے ہاں وہ معتبر ہے جو ایمان و اخلاص کے اتھ ہو اور جس کے ساتھ آخرت کے شایان شان عملی جدوجہد بھی پائی جاتی ہو۔ اگر اس میں ریا اور شرک کی کوئی آلودگی شامل ہو، یا محض زبان کے بھاگ کے بل پر جنت کو جیتنے کے خواب دیکھے جا رہے ہو تو ان لذیذ خوابوں کی خدا کے ہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
Top