Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 5
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : کردے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : فرمایا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا تُكَلِّمَ : تو نہ بات کرے گا النَّاسَ : لوگ (جمع) ثَلٰثَ : تین لَيَالٍ : رات سَوِيًّا : ٹھیک
اس نے کہا، اے میرے خداوند ! میرے لیے کوئی نشانی ٹھہرا دیجیے، فرمایا، تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین شب ور روز لوگوں سے بات نہ کرسکوگے درآنحالیکہ تم بالکل تندرست ہوگے
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا۔ اطمینان قلب کے لیے ایک اور درخواست : یہ حضرت زر کیا نے اپنے اطمینان قلب کے لیے ایک اور درخواست پیش کردی۔ یہ بشارت ان کی دلی آرزو کا مظہر اور ان کے لیے بڑی اہمیت رکھنے والی تھی اس وجہ سے انہوں نے چاہا کہ ہر پہلو سے اس پر شرح صدر ہوجائے۔ حضرت زکریا نے یہ بشارت ہاتف غیب سے سنی تھی اس وجہ سے انہیں یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ممکن ہے یہ واہمہ کی خلاقی ہو اور اپنے ہی گنبد دل کی صدا اس شکل میں سنائی دی ہو۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ ان کو کوئی ایسی نشانی دکھا دی جائے جس سے انہیں پورا اطمینان ہوجائے کہ یہ بشارت رب ہی کی طرف سے ملی ہے اس میں نفس یا شیطان کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس قسم کی درخواستیں بعض دوسرے انبیاء کی بھی قرآن میں مذکور ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم رویا اور ہاتف غیب کی باتیں قبول کرنے کے معاملے میں بڑی احتیاط برتتے تھے۔ اس سے خدانخواست ان کے ایمان کے بارے میں کوئی شبہ کرنے کی گنجائش نہیں نکلتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور اس بارے کے خدائی بشارت ہونے کی نشانی یہ مقرر فرما دی کہ تم تین شبانہ روز مسلسل تسبیح و تہلیل تو کرسکوگے لیکن کوئی اور لفظ زبان سے نہ نکال سکوگے۔ ظاہر ہے کہ ایک آدمی پر ایسی حالت کا طاری ہوجانا کہ وہ ذکر الٰہی تو کرسکے لیکن کوئی اور کلمہ زبان سے نہ نکال سکے، کوئی شیطانی حالت نہیں ہوسکتی، یہ ہوسکتی ہے تو رحمانی حالت ہی ہوسکتی ہے۔ چناچہ یہ حالت حضرت زکریا پر طاری ہوگئی، وہ محرابِ عبادت سے نکل کر لوگوں میں آئے تو وہ کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ صرف اشارے سے انہوں نے لوگوں لوگو کو تسیح و تہلیل میں مشغول رہنے کی ہدایت کی۔ بعض لوگوں نے " الاتکلم " کو خبر کے بجائے نہی کے معنی میں لیا ہے۔ آیت کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ حضرت زکریاں نے نشانی مانگی تو ان کو حکم ہوا کہ تین رات لگاتار تم کسی سے بات نہ کرو۔ جن حضرت نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے انہوں نے نہ تو اس بات پر غور کرنے کی زحمت اٹھائی کہ حضرت زکریا نے کس چیز کی نشانی مانگی تھی اور نہ اس مسئلہ پر غور فرمایا کہ حضرت زکریا کو تین شبانہ روز خاموش رہنے کے حکم میں نشانی ہونے کا کیا پہلو نکلا۔ سَوِيًّ کا مفہوم : " سوی " مرض اور عیب سے بری کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تم تین شبانہ روز کسی سے بات تو نہ کرسکوگے لیکن یہ حالت کسی مرض یا خرابی کا نتیجہ نہیں ہگی بلکہ ہر گونہ صحت کے ساتھ محض اللہ کے حکم سے بطور ایک نشانی کے ہوگی جس طرح حضرت موسیٰ کے ید بییضاء کی نشانی سے متعلق فرمایا ہے کہ تخرج بیضاء من غیر سوء اسی طرح یہاں لفظ سویا بطور ایک بدرقہ کے ہے۔ لگاتار یا مسلس کے معنی میں اس کا استعمال معروف نہیں ہے۔ آگے اسی سورة میں یہ لفظ آیات 17 میں بھی آیا ہے وہاں یہ صریحاً بھلے چنگے، ہٹے کٹے، تندرست اور مستوی القامت کے معنی میں ہے۔ لیالی شب و روز دونوں پر حاوی ہے : " لیالی " کا لفظ یہاں شب و روز دونوں پر حاوی ہے۔ سورة آل عمران میں یہی مضمون لفظ " ایام " سے بیان ہوا ہے۔ ایام کا اطلاق بھی شب و روز دونوں پر ہوتا ہے۔ عربی میں یہ استعمالات معروف ہیں۔
Top