Tadabbur-e-Quran - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
بالآخر یہ ہوا کہ درد زہ اس کو کھجور کے تنے کے پاس لے گیا۔ اس وقت اس نے کہا، اے کاش ! میں اس سے پہلے ہی مرکھپ کے بھولی بسری چیز ہوچکی ہوتی
فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا۔ " جذع " تنہ کو کہتے ہیں اور نخلہ پر الف لام اس بات کا قرینہ ہے کہ کھجور کا یہ درخت پہلے سے ان کے علم میں تھا۔ ممکن ہے اس ذہنی پریشانی کے عالم میں انہیں رویا کے ذریعے سے یہ غیبی اشارہ ہوا ہو کہ جب ولادت کا مرحلہ آئے تو وہ فلاں کھجور کے پاس چلی جائیں، وہاں ان کے لیے ضروری لوازم فراہم ہوں گے۔ چناچہ جب انہوں نے درد زہ کا احساس کیا تو اس بتائے ہوئے درخت کے نیچے چلی گئیں۔ حضرت مریم کے دلی احساسات کا ایک عکس : قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا۔ ذرا تصور کیجیے کیا حال ہوا ہوگا ایک پاکیزہ گھرانے کی ایک کنواری عفیفہ کا جب اس نے اپنے گمان کے مطابق اپنی رسوائی کا یہ سامان اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہوگا ! یہ فقرہ ان کے اندرونی احساسات کی بالکل صحیح تعبیر ہے۔ انہوں نے فرمایا اے کاش اس فضیحتے سے پہلے ہی میں مرگئی ہوتی، صرف مر ہی نہیں گئی ہوتی بلکہ لوگوں کے حافظہ سے میری یاد بھی محو ہوچکی ہوتی۔
Top