Tadabbur-e-Quran - Maryam : 90
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّاۙ
تَكَادُ : قریب ہے السَّمٰوٰتُ : آسمان يَتَفَطَّرْنَ : پھٹ پڑیں مِنْهُ : اس سے وَتَنْشَقُّ : اور ٹکڑے ٹکرے الْاَرْضُ : زمین وَتَخِرُّ : اور گرپڑیں الْجِبَالُ : پہاڑ هَدًّا : پارہ پارہ
کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ دھماکے کے ساتھ گر پڑیں
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الأرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۔ هَدّ کے معنی کسی دیوار وغیرہ کے دھماکے کے ساتھ گرنے کے ہیں۔ شرک کی سنگینی کی تعبیر : یہ اسی بات کی سنگینی واضح فرمائی ہے کہ قریب ہے کہ اس کے سبب سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ دھماکے کے ساتھ گر پڑیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس تہمت سے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو بھی ایسی غیرت و حمیت لاحق ہوتی ہے کہ وہ ایک منٹ کے لیے بھی ان نابکاروں کو برداشت کرنا نہیں چاہتے جو خدا کا شریک بناتے ہیں لیکن وہ خدائے رحمان کے حکم کے تابع ہیں اس وجہ سے جب تک وہ کسی گروہ کو مہلت دیتا ہے اس وقت تک وہ بھی اپنے غضب کو ضبط کرتے ہیں۔ ایک بیان حقیقت : یہ امر واضح رہے کہ یہ کوئی مبالغہ کا اسلوب بیان نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا بیان ہے۔ جب ایک غیور بیٹا اس بات کو گوارا نہیں کرسکتا کہ کوئی اس کے باپ کے سوا کسی اور باپ کی طرف منسوب کردے یا اس کے باپ کے ساتھ دوسروں کو بھی اس کا باپ بنادے تو آسمان و زمین اور دریا اور پہاڑ اس بےناموسی کو کس طرح برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی ان کو خدائے وحدہ لاشریک لہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرے یا ان کی خلقت میں خدا کے سوا دوسروں کو بھی ساجھی مان لے۔ ہم دوسرے مقام میں اس حقیقت کی وضاحت کرچکے ہیں کہ آسمان و زمین، سورج اور چاند سب کی فطرت ابراہیمی ہے۔ وہ اپنے مظا ہے سے اس فطرت تکوینی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی یہ فطرت اس بات سے ابا کرتی ہے کہ وہ ان لوگوں کو برداشت کریں جو خدا کے لیے اولاد ٹھہائیں لیکن ان کی باگیں خدا کے ہاتھ میں ہیں اس وجہ سے وہ اپنی مرضی سے کوئی اقدام نہیں کرسکتے۔
Top