Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 96
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۛۚ یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ١ۚ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَتَجِدَنَّهُمْ : اور البتہ تم پاؤگے انہیں اَحْرَصَ : زیادہ حریص النَّاسِ : لوگ عَلٰى حَيَاةٍ : زندگی پر وَمِنَ : اور سے الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے اَشْرَكُوْا : شرک کیا يَوَدُّ : چاہتا ہے اَحَدُهُمْ : ان کا ہر ایک لَوْ : کاش يُعَمَّرُ : وہ عمر پائے اَلْفَ سَنَةٍ : ہزار سال وَمَا : اور نہیں هُوْ : وہ بِمُزَحْزِحِهٖ : اسے دور کرنے والا مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب اَنْ : کہ يُعَمَّرَ : وہ عمر دیا جائے وَاللہُ : اور اللہ بَصِیْرٌ : دیکھنے والا بِمَا : جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں
اور تم ان کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاؤ گے، ان لوگوں سے بھی زیادہ جنہوں نے شرک کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اس کو ہزار سال عمر ملے حالانکہ اگر یہ عمر بھی ان کو ملے تو بھی وہ اپنے آپ کو خدا کے عذاب سے بچانے والے نہیں بن سکتے اور اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔
یعنی ایک طرف تو خدا کے ساتھ محبت و محبوبیت کے یہ دعوے ہیں دوسری طرف زندگی کی محبت کا یہ حال ہے کہ ساری دنیا سے زیادہ زندگی کے حریص یہ ہیں۔ یہاں تک کہ اس معاملہ میں یہ عرب کے ان مشرکوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں جن کے ہاں یہ دنیا ہی دنیا ہے، آخرت کا جن کے سامنے سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ قرآن نے ایک سے زیادہ مقامات میں یہود کا موازنہ مشرکین عرب سے کر کے یہ دکھایا ہے کہ یہ عقیدہ اور عمل دونوں ہی اعتبارات سے مشرکین سے بھی گئے گزرے ہوئے ہیں۔ مشرکین کتاب و شریعت سے بے بہرہ ہونے کے سبب سے قدرتی طور پر فکری اور اخلاقی حیثیت سے نہایت پست سطح پر تھے۔ قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ کتاب اور شریعت کے نہایت بلند و بانگ دعاوی کے باوجود اخلاقی اعتبار سے یہ یہود مشرکین کو بھی شرماتے ہیں حالانکہ یہ ان کو نہایت حقیر سمجھتے ہیں۔ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہٖ: اس کا ایک ترجمہ تو وہی ہو سکتا ہے جو ہم نے کیا ہے۔ دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ کسی کو اس کی عمر کی درازی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ معنی کے اعتبار سے دونوں ترجموں میں کوئی فرق نہیں ہے اور زبان کے قواعد کے لحاظ سے بھی میرے نزدیک دونوں صحیح ہیں۔ لیکن اکثر اہل تاویل نے اختیار اسی دوسرے کو کیا ہے۔ وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ: یعنی لمبی سے لمبی عمر بھی کسی کے اعمال کو خدا سے نہیں چھپا سکتی۔ خدا ان ساری چیزوں کو دیکھ رہا ہے جو یہ کر رہے ہیں اور جب دیکھ رہا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ان کا بدلہ نہ دے۔ یہاں دیکھنے سے مراد وہ چیز ہے جو اس دیکھنے سے لازم آتی ہے۔ کلام کا یہ اسلوب قرآن مجید میں بے شمار مواقع میں استعمال ہوا ہے۔
Top