Tafseer-Ibne-Abbas - Hud : 8
وَ لَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗ١ؕ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور اگر اَخَّرْنَا : ہم روک رکھیں عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابَ : عذاب اِلٰٓى : تک اُمَّةٍ : ایک مدت مَّعْدُوْدَةٍ : گنی ہوئی معین لَّيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے مَا يَحْبِسُهٗ : کیا روک رہی ہے اسے اَلَا : یاد رکھو يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْهِمْ : ان پر آئے گا لَيْسَ : نہ مَصْرُوْفًا : ٹالا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَحَاقَ : گھیر لے گا وہ بِهِمْ : انہیں مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
اور اگر ایک مدت معین تک ہم ان سے عذاب روک دیں تو کہیں گے کہ کون سی چیز عذاب کو روکے ہوئے ہے۔ دیکھو جس روز ان پر واقع ہوگا (پھر) ٹلنے کا نہیں اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزأ کیا کرتے ہیں وہ ان کو گھیر لے گی۔
(8) اور اگر ہم ان سے مقررہ مدت یعنی غزوہ بدر تک عذاب ملتوی رکھتے ہیں تو یہ اہل مکہ بطور مذاق اور انکار کے کہتے ہیں کہ اس عذاب کو ہم سے کون چیز روک رہی ہے یاد رکھو جس وقت وہ عذاب ان پر آپڑے گا تو وہ عذاب کسی کے ٹالے نہ ٹلے گا اور رسول اکرم ﷺ اور قرآن کریم کے ذریعے جس عذاب کے ساتھ یہ مذاق کیا کرتے تھے وہ ان کو اچانک آپکڑے گا۔ شان نزول : (آیت) ”ولئن اخرنا عنہم“۔ (الخ) ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آیت کریمہ ”۔ اقترب للناس حسابھم“۔ نازل ہوئی تو کچھ لوگوں نے کہا کہ قیامت قریب آرہی ہے لہذا رک جاؤ تو لوگوں میں سے کچھ حضرات رک گئے اس کے بعد پھر اپنے مکروفریب اور برائیوں میں مبتلا ہوگئے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور اگر تھوڑے دنوں تک ہم ان سے عذاب کو ملتوی رکھتے ہیں، اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن جریج ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
Top