Baseerat-e-Quran - Hud : 8
وَ لَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗ١ؕ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور اگر اَخَّرْنَا : ہم روک رکھیں عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابَ : عذاب اِلٰٓى : تک اُمَّةٍ : ایک مدت مَّعْدُوْدَةٍ : گنی ہوئی معین لَّيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے مَا يَحْبِسُهٗ : کیا روک رہی ہے اسے اَلَا : یاد رکھو يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْهِمْ : ان پر آئے گا لَيْسَ : نہ مَصْرُوْفًا : ٹالا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَحَاقَ : گھیر لے گا وہ بِهِمْ : انہیں مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
اور اگر ہم کچھ دنوں تک ان سے عذاب کو ٹال دیتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ اس عذاب کو آخر کس نے روک رکھا ہے ؟ یاد رکھو ! جس دن وہ عذاب ان پر آئے گا تو پھر کسی کے منہ پھیرنے سے ٹل نہ سکے گا اور جس عذاب کا یہ مذاق اڑا رہے تھے وہ ان پر مسلط کردیا جائے گا۔
لغات القرآن آیت نمبر 9 تا 11 اذقنا (ہم نے چکھا دیا) منا (ہم سے) نزعنا (ہم نے کھینچ لیا، واپس لے لیا) یئوس (مایوس ہوجاتا ہے) کفور (ناشکرا) نعمآء (نعمتیں) مستہ (اس کو پہنچتی ہے) السیئات (خرابیاں، برائیاں ) فرح (وہ اترانے والے فخور (شیخی بگھارنا، بڑائی کرنا) اجر کبیر (بہت بڑا بدلہ) تشریح : آیت نمبر 9 تا 11 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ : ہم نے ان کو برو بحر یعنی خشکی اور تری میں عزت و سربلندی سے نوازا ہے اور ان کو ہر طرح کا پاکیزہ رزق عطا فرمایا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر تمام فرشتوں کو اس کی عظمت کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ شیطان کو اس کے تکبر کی بنیاد پر ہمیشہ کے لئے بار گاہ الٰہی سے نکال دیا گیا کہ اس نے اپنے آپ کو انسان سے افضل و برتر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ اور اسی طرح قرآن کریم میں انسان کی عزت و سربلندی کا ذکر کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پوری کائنات میں سب سے افضل و اشرف مقام عطا فرمایا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا کہ انسان میں چند بہت بڑی بڑی کمزوریاں بھی ہیں ” وہ بہت کمزور پیدا کیا گیا ہے “ وہ بہت جلد باز ہے “ یعنی ہر نتیجہ کو فوراً حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کو رحمت کا مزا چکھا دیا جاتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے، فخر و غرور کرنے لگتا ہے اور اگر حالات اس کے لئے ناموافق ہوجائیں تو وہ ناشکرا پن کرتا ہے اور مایوس ہوجاتا ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو برو بحر میں فضیلت و عظمت نصیب فرمائی ہے وہیں وہ بہت سی بنیادی کمزوریوں کا مجموعہ بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان پر اگر نعمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں تو وہ ان میں مگن اور بدمست ہو کر غرور وتکبر کا پیکر بن جاتا ہے۔ اس مال و دولت کو اپنا حق سمجھ کر دوسروں کو ذلیل و خوار سمجھنے لگتا ہے اور اگر مفلسی اور تنگ دستی، پریشانی اور آزمائش کی گھڑی آجاتی ہے تو وہ شکوے شکایتیں، رونا چلانا اور مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ مایوس ہو کر ناشکرے پن اور کفر کی باتیں شروع کردیتا ہے حالانکہ اچھے اور برے حالات ، خوش حالی و بد حالی یہ انسان کی محض ایک آزمائش ہے کبھی وہ دنیا بھر کی نعمتیں دے کر آزماتا ہے اور کبھی سب کچھ چھین کر اور مشکلات میں ڈال کر اس کا امتحان لیتا ہے۔ لیکن کون لوگ ناشکرے اور غرور وتکبر کے پتلے ہیں اور کون سب کچھ پا کر بھی اپنی، اپنے خاندان اور مال و دولت کی بڑائی کے بجائے شکر کا راستہ اپناتے ہیں فرمایا کہ وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والے جن کی خطاؤں کی معافی اور اجر عظیم ان کا منتظر ہے وہ لوگ غلط راستہ اختیار نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہو کر نیکی اور ایمان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل صالح ہر طرح کی خیر اور فلاح کا ذریعہ ہے جو انسان ایمان اور اعمال صالح سے دور ہیں وہی درحقیقت تکبر اور غرور کا پیکر ہیں لیکن اللہ نے جن کو ایمان اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائی ہے وہی لوگ ناموافق اور برے حالات میں بھی مایوس ہونے کے بجائے صبر و تحمل سے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور پانی بدحالی سے شکستہ خاطر نہیں ہوتے۔ اسی طرح آزمائش مفلسی اور تنگ حالی کی گھڑی گذرنے کے بعد جب ان کو راحتوں کا مزا چکھا دیا جاتا ہے تو اپنے آپے سے باہر نہیں ہوجاتے بلکہ شکر کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس مقام پر اور قرآن کریم میں متعدد جگہ فرمایا گیا کہ ” اگر ہم ان کو رحمت کا مزا چکھا دیں “ اس سے اس بات کا اظہار کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا میں جتنی بھی راحتیں اور آرام ملتے ہیں وہ حقیقی نہیں ہیں بلک حقیقی راحت و آرام صرف آخرت میں نصیب ہوگا۔ البتہ وہ نعمتیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل پر اس کا گمان بھی گذرا (الحدیث) وہ تمام نعمتیں آخرت میں عطا کی جائیں گی ان نعمتوں کا تو اس دنیا میں تصور بھی ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان و عمل صالح اور انبیاء و رسل کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دنیا اور آخرت بہتر فرما کر ہمیں جہنم کی آگ سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین
Top