Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے زبور میں موعظت کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے
زمین کے وارث صالحین ہوا، گے اس آیت میں زبور کا حوالہ ہے۔ زبور میں یہ بات یوں تو جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہی ہوں گے لیکن باب 37 تو پورے کا پورا گویا صرف اسی ایک حقیقت کی وضاحت کے لئے مخصوص ہے اس وجہ سے ہم یہ پورا باب یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے حوالہ کی صحت و صداقت بھی واضح ہوجائے، یہ بھی معلوم ہوجائے کہ زمین کی وراثت سے یہاں کس زمین کی وراثت مراد ہے، نیز من بعد الذکر کا صحیح مفہوم بھی متعین ہو سکے کہ ذکر سے یہاں کس چیز کی طرف اشارہ ہے۔ پہلے ہم زبور سے حضرت دائود کا مزمور نقل کرتے ہیں، اس کے بعد اس کی ان باتوں کی طرف اشارہ کریں گے جو آیت زیر بحث کی وضاحت کے لئے خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ”تو بدکرداروں کے سبب سے بیزار نہ ہو اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر کیونکہ وہ گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائیں گے اور سبزہ کی طرح مر جھا جائیں گے۔ خدا وند پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباددرہ اور اس کی وفاداری سے پرورش پا۔ خداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ خداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ اس آدمی کے سبب سے جو اپنی راہ میں کامیاب ہوتا اور برے منصوبوں کو انجام دیتا ہے بیزار نہ ہو۔ قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔ بیزار نہ ہو۔ اس سے برائی ہی نکلتی ہے۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا۔ تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر وہ نہ ہو گ۔ لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے۔ اور سلامتی کی فراوانی سے شادیاں رہیں گے۔ شریر راست باز کے خلاف بندشیں باندھتا ہے اور اس پر دانت پیستا ہے۔ خداوند اس پر ہنسے گا کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کا دن آتا ہے۔ شریروں نے تلوار نکالی اور کمان کھینچی ہے تاکہ غریب اور محتاج کو گرا دیں۔ اور راست رو کر قتل کریں۔ ان کی تلوار ان ہی کے دل کو چھیدے گی اور ان کی کمانیں توڑی جائیں گی۔ صادق کا تھوڑا سامان بہت سے شریروں کی دولت سے بہتر ہے کیونکہ شریروں کے بازو توڑے جائیں گے لیکن خداوند صادقوں کو سنبھالتا ہے کامل لوگوں کے ایام کو خدا جانتا ہے ان کی میراث ہمیشہ کے لئے ہوگی۔ وہ آفت کے وقت شرمندہ نہ ہوں گے اور کال کے دنوں میں آسودہ رہیں گے لیکن شریر ہلاک ہوں گے خداوند کے دشمن چراگاہوں کی سرسبزی کی مانند ہوں گے۔ وہ فنا ہوجائیں گے۔ وہ دھوئیں کی طرح جاتے رہیں گے۔ شریر قرض لیتا ہے اور ادا نہیں کرتا۔ لیکن صادق رجم کرتا ہے اور دیتا ہے۔ کیونکہ جن کو وہ برکت دیتا ہے وہ زمین کے وارث ہوں گے اور جن پر وہ لعنت کرتا ہے وہ کاٹ ڈالے جائیں گے انسان کی روشیں خداوند کریم کی طرف سے قائم ہیں اور وہ اس کی راہ سے خوش ہے اگر وہ گر بھی جائے تو پڑا نہ رہے گا کیونکہ خداوند اسے اپنے ہاتھ سے سنبھالتا ہے۔ میں جان تھا اور اب بوڑھا ہوں تو بھی میں نے صادق کو بےکس اور اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔ وہ دن بھر رحم کرتا ہے اور قرض دیتا ہے اور اس کی اولاد کو برکت ملتی ہے بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر اور ہمیشہ تک آبادرہ کیونکہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے اور اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں پر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے صادق کے منہ سے دانائی نکلتی ہے اور اس کی زبان سے انصاف کی باتیں اس کے خدا کی شریعت اس کے دل میں ہے وہ اپنی روش میں پھسلے گا نہیں شریر صادق کی تاک میں رہتا ہے اور اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔ خداوند اسے اس کے ہاتھ میں نہیں چھوڑے گا اور جب اس کی عدالت ہو تو اسے مجرم نہ ٹھہرائے گا خداوند کی آس رکھ اور اسی کی راہ پر چلتا رہ اور وہ تجھے سرفراز کر کے زمین کا وارث بنائے گا۔“ اس مزمور کے بعض نمایاں پہلو ہمارے نزدیک زبور کے اسی مزمور کا قرآن نے یہاں حوالہ دیا ہے۔ اس مزمور پر غور کیجیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ اس کی نوعیت ایک ترکیب بند کی ہے جس میں پہلے موعظت و نصیحت کی باتیں آتی ہیں پھر باربار ایک ترجیح یا ٹپ کے بند کی طرح یہ بات آتی ہے کہ زمنر اور ملک کے وارث خدا کے نیک اور متقی بندے ہوں گے، یہ اسلوب کلام قرآن کی سورة رحمٰن کے اسلوب سے مشابہ ہے جس میں فبای الآء ربکما تکذبن کی ترجیح ہے۔ خط کشیدہ فقروں پر نگاہ ڈالیے تو یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ یہاں صالحین و متقین کے لئے زمین کی جس وراثت کا ذکر ہے اس کے ساتھ یہ بشارت بھی ہے کہ یہ وراثت ابدی ہوگی۔ مثلاً فرمایا ہے ”ان کی میراث ہمیشہ کے لئے ہوگی ‘ دوسری جگہ ہے ”اور ہمیشہ تک آباد رہ“ تیسری جگہ ہے ”وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں“ چوتھی جگہ نہایت واضح الفاظ میں ہے ”اور صادق زمین کے وارث ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“ 1 ظاہر ہے کہ یہ ابدی وراثت کی بشارت اس زمین سے متعلق نہیں ہے جس پر ہم اور آپ آباد ہیں۔ اس کی نہ تو کوئی چیز ابدی ہے اور نہ اس کی وراثت صالحین و متقین کے لئے مخصوص ہے بلکہ یہ زمین اور اس کی ہر چیز فانی ہے اور اس میں نیکوں اور بدوں دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت تک کے لئے یکساں مہلت بخشی ہے جس کے بعد یہ آسمان و زمین دونوں فنا ہوجائیں گے اور نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ ایک جہان نو پیدا ہوگا جس کی ابدی وراثت صالحین و متقین کو حاصل ہوگی اور اہل باطل جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ جہاں نو کی وراثت صرف صالحین و حاصل ہو گی بعینیہ یہی بات قرآن سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اوپر کی آیت 104 میں صاف تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دن اس آسمان کی بساط لپیٹ کر رکھ دے گا۔ سورة ابراہیم آیتط 48 میں آسمان و زمین دونوں سے متعلق یہ تصریح ہے کہ یوم تبدل الارض غیر الارض و السموت (اس دن کو نگاہ میں رکھو جس دن زمین دوسری زمین سے اور آسمان دوسرے آسمان سے بدل دیئے جائیں گے) اس بدلے ہوئے آسمان و زمین کے اندر بلاشبہ یہ قانون ہوگا کہ ان کی ابدی وراثت و بادشاہی صرف صالحین کو حاصل ہوگی۔ نافرمانوں کے لئے اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ یہ بات صرف زبور اور قرآن ہی سے نہیں بلکہ تمام آسمانی صحیفوں اور تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیم سے ثابت ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن نے آیت زیر بحث میں زبور کے حوالہ سے واضح فرمایا ہے۔ زبور حضرت دائود ؑ پر اترے ہوئے نغمات الٰہی کا مجموعہ ہے۔ حضرت دائود، جیسا کہ اسی سورة میں بیان ہوا ہے، نبی بھی تھے اور اس زمین کے ایک جلیل القادر بادشاہ بھی۔ ایک بادشاہ کی زبان ہی سے یہ اعلان سب سے زیادہ موزوں ہوسکتا تھا کہ زمین کے حقیقی اور آخری وارث صرف اللہ کے نیک بندے ہی ہوں گے۔ جب ایک صاحب جبروت بادشاہ اس حقیقت کی منادی کر گیا ہے تو کسی دوسرے کے لئے اس میں مجال سخن کہاں باقی رہی۔“ آیت کے اجزاء پر ایک نظر اس وضاحت کے بعد اب آیت زیر بحث کے اجزاء پر غور کیجیے۔ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر اوپر زبور کے باب 37 کے حوالہ سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قرآن نے یہاں زبور کی جس تعلیم کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس کے ایک مستقل باب میں نہایت تفصیل کے ساتھ، نہایت مئوثر انداز میں بیان ہوئی ہے اور یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اسلوب بیان یہ اختیار فرمایا گیا ہے کہ اصل بات ترجیح و تکرار کے ساتھ اس طرح کہی گئی ہے کہ ہر بار اصل بات سے پہلے حکمت و موعظت 1۔ ملاحظہ ہوں مزمور کے اندر خط کشیدہ فقرے کی نہایت اعلیٰ باتوں کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی چیز کی طرف قرآن نے من بعد الذکر کے ا لفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اس اشارے کی اہمیت یہ ہے کہ درحقیقت یہی نصیحتیں ہیں جن پر عمل زمین کی ابدی بادشاہی کا ضامن ہے۔ ان الارض یرثھا عبادی الصلحون یہ وہ اصل بات ہے جس کے لئے قرآن نے زبور کا حالہ دیا ہے۔ زبور کے حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ یہاں زمین سے مراد اس جہاں نو کی زمین ہے جو قیامت کے بعد وجود میں آئے گی اور جس کے مالک و وارث بلا شرکت غیرے صرف اللہ کے نیکو کاربندے ہوں گے۔
Top