Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 9
ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰهُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ
ثُمَّ : پھر صَدَقْنٰهُمُ : ہم نے سچا کردیا ان سے الْوَعْدَ : وعدہ فَاَنْجَيْنٰهُمْ : پس ہم نے بچا لیا انہیں وَمَنْ نَّشَآءُ : اور جس کو ہم نے چاہا وَاَهْلَكْنَا : اور ہم نے ہلاک کردیا الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر ہم نے ان سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ان کو اور جن کو ہم چاہتے ہیں نجات دی اور حدود سے تجاوز کر جانے والوں کو ہلاک کردیا
دعد سے مراد وہی وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے فرمایا کہ اگر لوگ تمہاری تکزیب کرنے والوں کو ہلاک کردیں گے اور تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو نجات دیں گے ہم یونس 20 کے تحت واضح کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کو دوعذابوں سے درایا ہے ایک اس عذاب سے جو اس دنیا میں رسول کی تکزیب کردینے والی قوم پر لازماََ آتا ہے، دوسرے اس عزاب سے جو آخرت میں ہوگا۔ یہاں عذاب مراد ہے۔ فرمایا کہ تھے تو وہ بہرحال بشر ہی لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھا وہ شچا کر دکھایا یعنی ان کو ادرجن کو ہم چاہیں نجات دی اور ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو حدود سے تجاوز کر جانے والے تھے۔ یہاں من نشاء کے اسلوب بیان نے کلام کو مطابق حال کردیا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ صرف ماضی کی حکایت نہیں ہے بلکہ اس وقت تمہارے سامنے بھی یہ فصلہ کن مرحلہ ہے۔ اگر تم نے اپنی ضد سے ہمارے عذاب کو دعوت دی تو ہم اس سے نجات انہی لوگوں کردی گے جن کو چاہیں گے۔ ہماری اس مشیت میں کوئی دوسرا دخیل نہ بن سکے گا اور نہ کوئی ہماری پکڑ سے بچ سکے گا۔ مسرفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کی حدود کو ڈھٹائی کے ساتھ توڑتے ہیں اور رسول کے انداز کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کے باضی قرار پاتے ہیں اور باغیوں کی سرکوبی لازما ہو کے رہتی ہے۔
Top