Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 41
وَ اِذَا رَاَوْكَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا
وَاِذَا : اور جب رَاَوْكَ : دیکھتے ہیں تمہی وہ اِنْ : نہیں يَّتَّخِذُوْنَكَ : وہ بناتے تمہیں اِلَّا : مگر۔ صرف هُزُوًا : تمسخر (ٹھٹھا اَھٰذَا : کیا یہ الَّذِيْ بَعَثَ : وہ جسے بھیجا اللّٰهُ : اللہ رَسُوْلًا : رسول
اور جب بھی یہ تمہیں دیکھتے ہیں بس تمہیں مذاق بنا لیتے ہیں۔ اچھا یہی ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے !
آیت (42-41) یعنی اللہ نے تو ان پر یہ فضل فرمایا کہ تمہارے اور قرآن کے ذریعہ سے ان پر دنیا اور آخرت کے حقائق واضح کئے لیکن انکی محرومی اور بدبختی کا یہ حال ہے کہ جب بھی تمہیں دیکھتے ہیں تمہارا مذاق اڑاتے اور طنز و تحقیر کے انداز میں کہتے ہیں کہ اچھا یہی ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ! ان حضرت نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے برگشتہ ہی کردیا ہوتا اگر ہم ان کی عبادت پر جمے نہ رہتے ! فرمایا کہ آج تو ان کو اپنی حماقت پر جمے رہنے پر بڑا ناز ہے لیکن کل کو جب یہ اپنی اس جہالت کے نتیجہ میں عذاب سے دوچار ہوں گے تب انہیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے پیغمبر نے ان کو گمراہ نہیں کرنا چاہا تھا بلکہ اس نے ان کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی تھی جس کو اختیار نہ کر کے بالآخر وہ کہاں سے کہاں پہنچے ! من اضل سبیلاً میں جس حقیقت کی طرف اشارہ ہے اس کی وضاحت ہم اوپر آیت 34 کے تحت کر آئے ہیں کہ گمراہوں کو اپنی گمراہی کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اس کا انجام سامنے نہ آئے۔ وہ اپنی خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں اور وہ خواہشیں کو اس طرح اندھا بنا دیتی ہیں کہ کوئی تذکیر و تنبیہ بھی ان پر کار گر نہیں ہوتی۔
Top