Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 5
وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
وَقَالُوْٓا : اور انہوں نے کہا اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ اكْتَتَبَهَا : اس نے انہیں لکھ لیا ہے فَهِيَ تُمْلٰى : پس وہ پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِ : اس پر بُكْرَةً : صبح وَّاَصِيْلًا : اور شام
اور کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کیفسانے ہیں جو اس نے لکھوائے ہیں تو وہ اس کو صبح اور شام لکھ کر تعلیم کئے جاتے ہیں
اکتتب فلان کا صحیح مفہوم لعنت میں یہ ہے کہ سال ان یکتب لہ اس نے درخواست کی کہ اس کے لئے لکھ دیا جائے۔ تملی کے بعد علی کا صلہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ تلفی علیہ یا تقرر علیہ کے مضمون پر متضمن ہے۔ اس وجہ سے اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ اس کو لکھوائے جاتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ اس کو لکھ کر تعلیم کئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہے، اس لئے کہ قریش جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ امی ہیں۔ آپ لکھنا نہیں جانتے۔ قریش کی طرف سے آفتاب پر خاک ڈالنے کی کوشش یہ اوپر والے الزام ہی کی مزید وضاحت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن میں کیا ؟ محض اگلوں کے فسانے ہیں جو اس میں دہرائے گئے ہیں ! اس شخص نے کچھ لوگوں سے یہ فرمائش کی کہ اس کے لئے یہ لکھ دیئے جائیں چناچہ وہ صبح و شام اس کے لئے لکھتے ہیں اور یہ شخص انہی کی لکھی ہوئی چیزوں کو ہمارے سامنے وحی الٰہی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تو اس کتاب میں کوئی ایسی حکمت ہے جس سے مرعوب ہوا جائے اور نہ اس کے پیش کرنے والے کا یہ دعویٰ ہی صحیح ہے کہ یہ وحی آسمانی ہے جو اضطراراً اس کے اوپر نازل ہوتی ہے بلکہ پچھلی قوموں اور پچھلے نبیوں کے کچھ جھوٹے سچے قصے ہیں جو اس شخص نے فرمائش کر کے دوسرے لوگوں سے لکھوائے ہیں۔ اس طرح انہوں نے قرآن کی حکمت کے اثر کو بھی مٹانے کی کوشش کی اور اس کے وحی آسمانی ہونے کے دعوے کو بھی مشتبہ کرنا چاہا لیکن ظاہر ہے کہ ان کی یہ یہ کوشش آفتاب پر خاک ڈالنے کے ہم معنی تھی۔ قرآن نے تاریخ جس حکمت کے ساتھ پیش کی تھی اس کی زد براہ راست متمبردین قریش کے غرور پر پڑتی تھی اور اس کے آئینہ میں ان کو اپنا مستقبل نہایت بھیانک نظر آتا تھا اس وجہ سے وہ جھلا کر اس کو مضای کا افاسنہ کہتے تھے لیکن حقیقت کو افاسنہ کہہ کر نہ اپنے ہی دل کو تسلی دی جاسکتی ہے نہ دوسروں کو دھوکا دیا جاسکتا ہے اگر ایک سلمان فارسی اور ایک ابوفکیہہ رومی یاد وچار اہل کتاب مل کر قریش کے زعم کے مطابق آنحضرت ﷺ کے لئے قرآن جیسی معجزہ کتاب تصنیف کرسکتے تھے تو قریش کے پاس تو ہزاروں عربی و عجمی اور لاکھوں اہل کتاب تھے، آخر نے ان کی مدد سے ایک قرآن تیار کر کے کیوں نہپیش کردیا کہ اس کے معجزہ ہونے کا دعویٰ باطل ہوجاتا ! لیکن جب وہ قرآن کی مسلسل تحدی کے باوجد اس کی کوئی نظریہ نہ پیش کرسکے تو ان کی اس مہمل بات کو کون باور کرسکتا تھا کہ یہ عظیم کتاب بعض عجمیوں یا بعض اہل کتاب کی ایجاد ہے چونکہ یہ بات بالدبااہت مہمل تھیی اس وجہ سے قرآن نے اس کی تردید کی ضرورت نہیں سمجھی۔ آگے والی آیت میں صرف اصل حقیقت کا اظہار فرما دیا جس میں ان بوالفضولوں کی اس بو الفضولی پر ایک لطیف طنز بھی ہے۔
Top