Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 86
وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
وَقَالُوْٓا : اور انہوں نے کہا اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ اكْتَتَبَهَا : اس نے انہیں لکھ لیا ہے فَهِيَ تُمْلٰى : پس وہ پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِ : اس پر بُكْرَةً : صبح وَّاَصِيْلًا : اور شام
اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو پہلوں کی کہانیاں ہیں جسے اس نے لکھ لیا ہے اور صبح و شام اسے پڑھ کر سنایا جاتا ہے
انہوں نے کہا کہ قرآن کیا ہے ؟ پہلوں کی کہانیاں ہی تو ہیں : 5۔ پیچھے ہم نے بیان کیا ہے کہ انسان جب کسی ضابطہ کا پابند نہ رہے تو وہ جو اس کے منہ میں آتا ہے کہتا جاتا ہے اور لوگوں کی اکثریت بھی کچھ اس قسم کی ہے کہ وہ ہر اس شخص کو اہمیت دینے لگتے ہیں جو بےلگام ہو کر بولتا جاتا ہے اور جو بول کسی کو پسند آیا وہی اس نے جذب کرلیا ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی دعوی کرنے والے کے متعلق یہ بھی سوچا جائے کہ آیا اس کا دعوی کیا ہے ، آپ پورا قرآن کریم پڑھ جائیں آپ کو ایک جگہ بھی اس کا اشارہ تک نہیں ملے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم میں کہیں یہ دعوی کیا ہے کہ میں نے جو کچھ تمہارے سامنے پیش کیا ہے یہ مجھ سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا اور میری دعوت گزشتہ دعوتوں کی طرح نہیں بلکہ ایک بالکل نئی دعوت ہے ، اگر آپ ﷺ کا یہ دعوی ہوتا تو ان کو حق تھا کہ وہ کہتا کہ یہ تو سراسر جھوٹ ہے اس میں تو گزشتہ لوگوں کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) پیش کرچکے ہیں ، بلکہ قرآن کریم کا اعلان تو یہ ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ (علیہ السلام) اعلان کر دیجئے کہ ” میں کوئی نرالا رسول نہیں “ مجھ سے پہلے بھی رسول بھیجے گئے اور میں جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ وہی ہے جو مجھ سے پہلے ان گنت نبی ورسول پیش کرچکے لیکن لوگوں نے اس کا بھلا دیا اور میں اسی بھولے ہوئے سبق کو یاد کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ لیکن نادان لوگوں کا عموما یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص انہیں حق کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے نئی بات آخر کیا کہی ہے یہ تو سب وہی پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے سے سنتے چلے آ رہے ہیں گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہوا کہ کسی بات کے حق ہونے کے لئے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور ہر وہ بات جو پرانی ہے وہ حق نہیں ہے ، حالانکہ حق ہر زمانہ میں ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کی بنا پر لوگ انسانوں کی راہنمائی کے لئے آگے بڑھے ہیں وہ سب کے سب قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی امر حق کو پیش کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی جو اس منبع علم سے فائدہ اٹھا کر کچھ پیش کرے گا تو انہیں پرانی باتوں کو دہرائے گا ، بلاشبہ قرآن کریم میں گزشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صلحاء عظام کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں لیکن کیا یہ لوگ ان گزشتوں کو اسی طرح مانتے ہیں جس طرح قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں یا یہ لوگ اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر انبیاء کرام (علیہ السلام) کے نام سے منسوب کرنے میں ماہر ہیں پھر جب نبی اعظم وآخر ﷺ نے ان کی گھڑی ہوئی باتوں کا رد کیا تو انہوں نے برملا الزام لگایا کہ آپ ﷺ ہم کو ہمارے باپ دادا کے دین سے ہٹانا چاہتے ہیں اور نئی باتوں کی طرف دعوت دیتے ہیں جو آج تک ہم نے اپنے آباد اجداد سے کبھی نہیں سنی گویا یہ وہی بات ہے جو ہم نے پہلے عرض کی کہ جو منہ میں آیا وہی کہہ دیا ۔ انہوں نے دوسرا الزام زیر نظر آیت میں یہ لگایا کہ یہ باتیں جو ہم پر پیش کی جا رہی ہیں یہ تو وہی ہیں جو کوئی پڑھنے والا اس رسول پر صبح وشام پڑھ دیتا ہے ، وہ کون ہے ؟ ان کی بلا سے انہوں نے تو ایک شوشہ چھوڑنا تھا چھوڑ دیا وہ کسی کا نام نہ لے سکتے تھے اور نہ ہی لیا کیونکہ وہ جس کا نام لیتے اس کی زبان اور اس کے نظریات کو دیکھ لیا جاسکتا تھا لیکن جب ان کو یہ بات کئے ہوئے مدت گزر گئی اور اس وقت کے لوگوں میں سے کوئی بھی موجود نہ رہا تو ہمارے قریب زمانہ کے بعض مستشرقین مغرب نے نبی کریم ﷺ پر یہی اعتراض نہایت شدت سے پیش کیا اور دلائل میں ایک دو باتیں بھی گھڑ لی گئیں ان میں سے ایک تو بحیرہ راہب کی ملاقات کا قصہ ہے جو ان کے ہاتھ لگ گیا اور پھر اس کے ساتھ آپ ﷺ کی جوانی کی تجارت کی داستانیں اور عیسائی راہبوں اور یہودی راہبوں سے معلومات حاصل کرنے کا الزام انہوں نے لگایا لیکن غور طلب بات تو یہ تھی کہ آخر یہ الزام قریش مکہ کو کیوں نہ سوجھا ؟ ظاہر ہے کہ معاصرین کو آپ ﷺ کے سارے سفروں کا حال معلوم تھا کیونکہ آپ ﷺ کے یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے بلکہ قریش مکہ کے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ اگر ان سے سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اردگرد سینکڑوں زبانیں کھل جائیں گی جو ہم کو جھٹلا دیں گی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ بحیرہ کا قصہ جو گھڑا گیا ہے وہ بھی اس وقت کا ہے جب آپ ﷺ کی عمر 12 ‘ 13 سال بمشکل ہوگی اور 25 سال کی عمر جو جوانی کی عمر ہے اگر اس وقت کچھ سیکھا ہوتا تو آخر پندرہ سال تک کیوں بالکل خاموش رہے اور چالیس سال کی عمر ہوتے ہیں آپ ﷺ نے وہ سب کچھ کہنا شروع کردیا پھر جب ان کو اس قرآن کریم کی مثل لانے کی دعوت عام دی گئی تو ان کے اس جھوٹ کی ساری کلی کھل گئی اور وہ بوکھلا کر رہ گئے ۔ چونکہ انکے الزام کا محض بےاصل اور سرا سرہٹ دھرمی پر مبنی ہونا بالکل ظاہر تھا اس لئے اس کی تردید میں دلائل پیش کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی اس لئے قرآن کریم میں دوسری جگہ یہ کہنے پر اکتفا کرلیا کہ اگر واقعی میں نے خود ایک کلام تصنیف کرکے اللہ کی طرف منسوب کرنے کا جرم عظیم کیا ہے جیسا کہ تم الزام رکھتے ہو تو مجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کے لئے تم نہ آؤگے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تم جھوٹے الزامات رکھ رکھ کر اسے روک رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تم سے نمٹ لے گا بلاشبہ حقیقت اللہ تعالیٰ سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور جھوٹ سچ کا فیصلہ کرنے کے لئے وہ بالکل کافی ہے ساری دنیا اگر ایک شخص کو جھوٹا کہے اور اللہ کے علم میں وہ سچا ہو تو آخری فیصلہ لازما اس کے حق میں ہوگا اور ساری دنیا اگر کسی کو سچا کہہ دے مگر اللہ کے علم میں وہ جھوٹا ہو تو آخر کار وہ جھوٹا ہی قرار پائے گا اور اس بات کا فیصلہ مکافات عمل سے ثابت ہوجائے گا لہذا تم کام کئے جاؤ ہم کو بھی اپنا کام کرنے دو پھر دنیا نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں اس حق و باطل کا فیصلہ ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو اس طرح کی ہٹ دھرمیاں کر رہے تھے ۔
Top