Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 20
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ
وَفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اٰيٰتٌ : نشانیاں لِّلْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والوں کیلئے
اور زمین میں بھی نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لئے
5۔ آگے آیات 23-20 کا مضمون آگے کی آیات میں سورة کے اصل عمود یعنی جزاء و سزا کے مضمون کو از سر نو لیا ہے اوپر صرف ابرو ہوا کے تصرفات سے استدلال تھا آگے آفاق وانفس کے ان تمام دلائل کی طرف آنکھیں کھولیں اور ان سے جو نتائج سامنے آتے ہیں ان پر یقین کریں۔ فرمایا۔ 6 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت وفی الارض ایت للموقنین (20) آسمان و زمین اور انسان کے اندر کی نشانیوں کی طرف اشارہ اوپر جزا و سزا کی جو نشانیاں مذکور ہوئی ہیں اس آیت کا عطف انہی پر ہے۔ ابرو ہوا کی نشانیوں کا تعلق زمین و آسمان کے درمیان کی نشانیوں سے ہے۔ اب آگے آسمان و زمین اور خود انسان کے اندر کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی اور اقرب فالا قرب کے اصول پر سب سے پہلے زمین کی نشانیوں کی طرف اشارہ فرمایا، اس کے بعد انفس کی نشانیوں کی طرف، پھر آسمان کی نشانیوں کی طرف یوں تو ان چیزوں سے قرآن نے اپنی دعوت کے تمام بنیادی حقائق … توحید، معاد، رسالت … پر استدلا کیا ہے جس کی تفصیل پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے لیکن یہاں سورة کے عمود کے تقاضے سے صرف معاد اور جزاء و سزا کی نشانیوں ہی کی طرف اشارہ ہے اس وجہ سے ہم بھی اپنی بحث صرف جزاء و سزا کے دلائل ہی تک محدود رکھیں گے، اور جس طرح قرآن نے اشارے پر اکتفا کیا ہے اسی طرح ہم بھی اشارات ہی پر اکتفا کریں گے اس لئے کہ یہ تمام بحثیں پچھلی سورتوں میں پوری تفصیل سے گزر چکی ہیں۔ سب سے پہلے سورة نبا کی مندرجہ ذیل آیات پر ایک نظر ڈال لیجیے جن میں قرآن نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی مختلف چیزوں سے معاد اور جزاء و سزا پر استدلال فرمایا ہے۔ ارشاد ہے۔ الم نجعل الارض مداً و الجبال اوتاداً وخلقنکم ازواجاہ وجعلنا نومکم سباتاً وجعلنا الیل لباساً وجعلنا النھار معاشاً وتبینا نوتکم سبعاً شدادۃ وجعلنا سراجاً وھاجاً وانزلتنا من المعصرت مآء ثجا جاہ لنخرج بہ حیاونباتاً وجنت الفاقاً ان یوم الفصل کان میقاتاً (النبا :17-6) کیا ہم نے زمین کو ایک گہوارہ نہیں بنایا ؟ اور اس میں پہاڑوں کی میچیں نہیں گاڑیں ؟ اور تم کو جوڑے جوڑے نہیں پیدا کیا ؟ اور تمہاری نیند کو وافع کلفت نہیں بنایا ؟ اور رات کو پردہ پوش نہیں بنایا ؟ اور دن کو معاش کا وقت نہیں ٹھہرایا ؟ اور تمہارے اوپر سات محکم آسمان نہیں بنائے اور اس میں ایک روشن چراغ نہیں رکھا ؟ اور بدلویں سے دھڑ دھڑتا پانی نہیں برسایا تاکہ اس سے غلے اور نباتات اور گھنے باغ اگائیں ؟ بیشک فیصلہ کا دن مقرر ہے ! ! ان آیات میں اپنی قدرت، رحمت اور ربوبیت کے ان گوناگوں آثار سے، جو آسمان، زمین اور ان کے درمیان موجود ہیں اور جن کا مشاہدہ ہر شخص بادنیٰ توجہ کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ثابت کی ہے کہ یہ کارخانہ بےمقصد اور عبث نہیں ہوسکتا اس وجہ سے لازم ہے کہ ایک ایسا دن آئے جس میں اس کا خالق نیکوں اور بدوں کے درمیان فیصلہ فرمائے۔ اس دلیل کے ہر پہلو کی وضاحت اس سورتوں کی تفسیر میں ہوچکی ہے اس وجہ سے یہاں ہم مختصر الفاظ میں زمین کی چند نشانیں کی طرف، جو جزاء و سزا پر دلیل ہیں، اشارہ کریں گے۔ زمین کی بعض نشانیاں جو جزاء و سزا پر دلیل ہیں …امکان معاد پر قرآن نے زمین کے آثار سے یوں دلیل قائم کی ہے کہ دیکھتے ہو کہ زمین بالکل مردہ اور بےآب وگیاہ ہوتی ہے، اس کے کسی گوشے میں بھی زندگی و روئیدگی کا کوئی نشان نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی گھٹا بھیجتا ہے اور بارش کا ایک ہی چھینٹا اس کو زندگی اور شادابی سے معمور کردیتا ہے غور کرو جو خدا اپنی قدرت کی یہ شان برابر ردکھا رہا ہے وہ لوگوں کے مرکھپ جانے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کرنا چاہے گا تو کیا نہیں کرسکے گا۔ …اس زمین میں رب کریم نے اپنے بندوں کی پرورش کے لئے جو گوناگوں اہتمام کر رکھے ہیں ان کا حوالہ دے کر یہ سوال کیا ہے کہ کیا جس رب کریم نے تمہاری پرورش کے لئے یہ سامان کر رکھا ہے وہ تمہیں اس زمین میں یوں ہی مطلق العنان چھوڑے رکھے گا اور کوئی ایسا دن نہیں لائے گا جس میں وہ ان لوگوں سے باز پرس کرے جنہوں نے اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اسی کے خلاف بغاوت کا ذریعہ بنایا ہوا اور ان لوگوں کو انعام دے جنہوں نے اس کی نعمتوں کا حق پہچانا ہو ! کیا تم ایسے حکیم و کریم پروردگار کے متعلق یہ گمان رکھتے ہو کہ وہ کوئی کھلنڈرا ہے جس کی نگاہوں میں نیکی و بدی یکساں ہے اور کیا تم اس فریب نفس میں مبتلا ہو کہ تمہارے رب کی یہ بےپایاں نعمتیں تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں کرتیں ! …اس زمین میں قوموں کی تباہی کے جو آثار ہیں قرآن نے ان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ یہ قومیں اپنے طغیان و تمرد کے باعث اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئیں۔ ان کی تباہی کے بعد ان کے آثار اس نے اس لئے محفوظ رکھے ہیں کہ ان کے بعد آنے والی قومیں ان سے سبق حاصل کریں کہ اس کائنات کا خالق اس دنیا کے خیر اور شر سے بےتعلق نہیں ہے بلکہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ چناچہ جب کسی قوم کا طغیان حد سے متجاوز ہوجاتا ہے تو وہ لازماً اس کے قانون مکافات سے دوچار ہوتی ہے۔ قوموں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ ایک ایسا دن بھی وہ لائے گا جس میں اس کا ہمہ گیر عدل ظاہر ہوگا۔ ہر شریر اپنی شرارت کی سزا بھگتے گا اور ہر نیکو کار اپنی نیکی کا بھرپور صلہ پائے گا۔ یہ زمین کے چند نہایت واضح آثار کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے جو جزاء و سزا پر دلیل ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی گوناگوں نشانیاں ہیں جن کی طرف قرآن نے توجہ دلائی اور ہم نے اس کتاب میں ان کی وضاحت کی ہے۔ یہاں ان کے اعادے میں طوالت ہوگی۔ حقائق کو ماننے کا حوصلہ نہ ہو تو دلائل کام نہیں دیتے للمومقنین یعنی زمین میں نشانیوں کی تو کمی نہیں ہے۔ قدم قدم پر نشانیاں موجود ہیں۔ بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں، غور کرنے والی عقلیں اور غور و فکر کے نتائج پر یقین کرنے والے دل ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک حقیقت کو قبول کرنے کے لئے مجرد بہ چیز کافی نہیں ہے کہ اس کے دلائل موجود ہیں بلکہ اس کے لئے یہ چیز بھی ضروری ہے کہ مخاطب کے اندر دلائل پر غور کرنے اور ان کے بدیہی نتائج کو تسلیم کرنے کا ارادہ پایا جاتا ہو۔ اگر آدمی کے اندر یہ ارادہ نہ ہو تو وہ واضح سے واضح حقیقت کو جھٹلا دینے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتا ہے۔ اس دنیا میں حقائق کی تکذیب صرف اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ ان کے حق میں دلائل نہیں ت ہے یا ان کو پیش کرنے والے موجود نہیں تھے بلکہ اکثر و بیشتر نہ ماننے کی خواہش ان کی تکذیب کی محرک ہوئی ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے۔
Top