Al-Qurtubi - Al-Kahf : 90
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ١۪ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى١ۚ وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ : سو تم نے نہیں قتل کیا انہیں وَلٰكِنَّ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ قَتَلَهُمْ : انہیں قتل کیا وَ : اور مَا رَمَيْتَ : آپ نے نہ پھینکی تھی اِذْ : جب رَمَيْتَ : آپ نے پھینکی وَلٰكِنَّ : اور بلکہ اللّٰهَ : اللہ رَمٰى : پھینکی وَلِيُبْلِيَ : اور تاکہ وہ آزمائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مِنْهُ : اپنی طرف سے بَلَآءً : آزمائش حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم لوگوں نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا۔ اور (اے محمد ﷺ جس وقت تم نے (کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزما لے۔ بیشک خدا سنتا جانتا ہے۔
آیت نمبر : 17۔ 18 قولہ تعالیٰ : آیت : فلم تقتلوھم ولکن اللہ قتلھم یعنی بدر کے دن تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قتل کیا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب جب غزوہ بدر سے واپس لوٹے تو ان میں سے ہر ایک نے اپنا کارنامہ ذکر کیا : میں نے اس طرح قتل کیا، میں نے اس طرح کیا۔ تو اس وجہ سے ان میں تفاخر اور اس جیسی دیگر چیزیں آنے لگیں۔ تو اس حقیقت پر آگہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 511) کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہی مارنے والا ہے اور وہی تمام چیزوں کی قدرت عطا کرنے والا ہے اور یہ کہ بندہ تو صرف اپنے کسب اور اپنے قصد کے ساتھ اس میں شریک ہوتا ہے۔ اور یہ آیت ان کا رد کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندے اپنے افعال کے خالق خود ہیں۔ پس کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان ملائکہ کے ستھ قتل کیا ہے جن کے ساتھ اس نے تمہاری مدد کی ہے۔ آیت : وما رمیت اذ رمیت اسی کی مثل ہے۔ آیت : ولکن اللہ رمی اس رمی کے بارے میں علماء کے مابین چار مختلف اقول ہیں : (1) بیشک اس ری سے مراد غزوہ حنین کے دن حضور نبی کریم ﷺ کا کنکریاں پھینکنا ہے۔ اسے وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس دن کوئی باقی نہیں بچا مگر اسے آپ ﷺ کی کنکری لگی۔ اسی طرح ان سے ابن القاسم نے بھی روایت کیا ہے۔ (2) یہ غزوہ احد کے دن کا واقعہ ہے جب آپ ﷺ نے ابی بن خلف کی گردن میں چھوٹا نیزہ مارا تو ابی شکست کھا رک واپس لوٹ گیا۔ تو مشریکن نے اسے کہا : قسم بخدا تجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ تو اس نے جواب دیا : واللہ لو بصق علی لقتلنی ( قسم بخدا ! اگر آپ مجھ پر تھوک دیتے تو یقینا مجھے قتل کردیتے) کیا انہوں نے یہ نہیں کہا تھا : بل انا اقتلہ (بلکہ میں اسے قتل کروں گا) ابی نے مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کو قتل کی دھمکی دی تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا تھا : بل انا اقتلک (البدایہ والنہایہ، فصل فی قتل رسول اللہ ابی بن خلف، جلد 4، صفحہ 35) (بلکہ میں تجھے قتل کروں گا) پس وہ دشمن خدا مکہ مکرمہ کی طرف واپس لوٹتے ہوئے مقام سرف پر رسول اللہ ﷺ کی اس ضرب سے مرگیا۔ موسیٰ بن عقبہ نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا ہے : جب غزورہ احد کا دن تھا تو ابی لوہے میں لپٹا ہوا گھوڑنے پر بیٹھ کر آیا اور کہنے لگا : اگر محمد ﷺ نجات پا گئے تو پھر میں نہیں بچ سکوں گا۔ چناچہ اس نے قتل کے ارادہ سے رسول اللہ ﷺ پر حملہ کردیا۔ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ حضرت سعید بن مسیب ؓ نے بیان کیا : پس مومنین میں سے کچھ لوگ اس کے سامنے آگئے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ تم اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ پھر حضرت مصعب بن عمیر ؓ رسول اللہ ﷺ کو بچانے کے لیے اس کے مقابلے میں آئے اور حضرت مصعب بن عمیر ؓ شہید ہوگئے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ابی بن خلف کی ہنسلی کی ہڈی کو خود اور زرہ کو ملانے والی جگہ کے درمیان سوراخ سے دیکھ لیا۔ پس آپ ﷺ نے اپنے چھوٹے نیزے کے ساتھ اسے مارا تو ابی اپنے گھوڑے سے گر پرا اور اسے نیزہ لگنے کی جگہ سے خون نہ نکلا۔ حضرت سعید ؓ نے کہا ہے : پس آپ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی توڑ دی۔ اور فرمایا : پس اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : آیت : وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی اور یہ ضعیف ہے، کیونکہ یہ آیت غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی ہے۔ (3) اس سے مراد وہ تیر ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے قلعہ میں پھینکا تھا پس وہ ہوا میں چلتا رہا یہاں تک کہ ابن ابی الحقیق کو اس کے بستر پر جالگا۔ یہ قول بھی فاسد ہے، خیبر کی فتح تو احد سے بھی بہت بعد میں ہوئی۔ ابن ابی الحقیق کے قتل کے بارے میں صحیح قول اس کے سوا ہے۔ (4) بلاشبہ یہ واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔ یہ ابن اسحاق نے کہا ہے : اور یہی اصح ہے، کیونکہ یہ سورت بدری ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) نے حضور نبی مکرم ﷺ کو کہا :” آپ مٹی کی ایک مٹھی لیں “ (1) ، پس حضور ﷺ نے مٹی کی ایک مٹھی لی اور اسے ان کے چہروں پر پھینکا اور مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں بچا مگر یہ کہ وہ مٹی اس کی آنکھوں، نتھنوں اور اس کے منہ میں پڑی، اور یہی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے، عنقریب اس کا بیان آئے گا۔ ثعلب نے کہا ہے : اس کا معنی ہے آیت : وما رمیت ان کے دلوں میں گھبراہٹ، خوف اور رعب آپ نے نہیں ڈالا۔ اذ رمیت جب آپ نے کنکریاں پھینکیں اور وہ پسپا ہوگئے۔ آیت : ولکن اللہ رمی بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی اور آپ کو فتح و کامرانی عطا فرمائی، عرب کہتے ہٰ : رمی اللہ لک یعنی اللہ تعالیٰ نے تیری مدد کی اور تجھے کامیاب کیا اور تیرے لیے ایسا کیا۔ اسے ابو عبیدہ نے کتاب المعاذ میں بیان کیا ہے۔ اور محمد بن یزید نے کہا ہے : آپ نے اپنی قوت کے ساتھ نہیں پھینکی جب آپ نے پھینکی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قوت کے ساتھ آپ نے پھینکی ہے۔ آیت : ولیبلی المومنین منہ بلآء حسنا یہاں البلاء سے مراد نعمت ( واحسن) ہے۔ اور ” لام “ محذوف کے ساتھ تعلق کے لیے ہے، یعنی ولیبلی المومنین فعل ذالک ( تاکہ اس طرح مومنوں پر احسان فرمائے) آیت : ذلکم وان اللہ موھن کید الکفرین یہ اہل حرمین اور ابو عمرو کی قراءت ہے۔ اور اہل کوفہ کی قراءت موھن کید الکافرین ہے اور تشدید میں مبالغہ کا معنی ہے اور حسن سے موھن کید الکافرین اضافت اور تخفیف کے ساتھ مروی ہے۔ اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دے گا یہاں تک کہ وہ تمام کے تمام متفرق ہوجائیں گے اور کمزور ہوجائیں گے اور کید کا معنی مکر ہے۔ اس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔
Top