Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگو ! زمین میں موجود حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو (پیروی نہ کرو) یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
آیات 168- 176 اسرارو معارف یایھا الناس کلوا ممافی الارض……………۔ لوگو ! اس ساری بربادی کا سبب اللہ کی نافرمانی ہے کہ زندگی میں ہر متنفس کی ساری محنت ومشقت دراصل غذا حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے تو یادرکھو ! روئے زمین پر ساری غذا تمہارے ہی لئے ہے مگر اللہ نے اس میں حلال و حرام مقرر فرمادیئے ہیں سو اگر تم ابدی ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو غذا حلال اور طیب کھائو تاکہ تم شیطان کی پیروی سے بچ سکو کیونکہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے اگر تم اس کی اطاعت اختیار کرو گے تو بھی خوش ہو کر تمہیں سیدھی راہ نہ بتائے گا۔ بلکہ ہمیشہ برائی اور بےحیائی پر اکساتا رہے گا اور تمہارے منہ سے ذات باری پر جھوٹ اگلوائے گا کہ اللہ کا حکم نہ ہوگا مگر تم اس بات کو اللہ کی طرف منسوب کرو گے۔ یا پھر اللہ پر اعتراضات کرتے رہو گے کہ حلال و حرام وہی ہیں جو اللہ نے مقرر فرمائے ہیں نہ یہ کہ شیطان کے بہکاوے میں آکر تم حلال کو حرام سمجھ بیٹھو اور حرام چیزوں کو حلال کہہ کر کھاتے رہو۔ کہ لوگ بعض حلال جانوروں کو بتوں کے نام کرکے چھوڑ دیتے اور ان کا کھانا حلال نہ جانتے تھے۔ کسی قدر مشابہت آج کے دور میں بھی پائی جاتی ہے۔ کہ مسلمان بھی جانوروں کو بعض بزرگوں کے نام مختص کردیتے ہیں اور پھر اپنے پر اس کو حلال نہیں سمجھتے۔ یہ سراسر ناجائز اور سخت گناہ ہے اور وہ جانور جو غیر اللہ کے نام پر مختص ہوجائے جب تک اس خیال سے توبہ نہ کی جائے حرام ہوگا اور مردار کے حکم میں ہوگا۔ لہٰذا ان کو ان کی اصلی حالت پر چھوڑ کر کھائو ، پیو ! یہی بات جب ان سے کہی جائے کہ اللہ کے احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں بھلا ہم باپ دادا کے رواج کو کیوں چھوڑ دیں اور ان کی اطاعت کیوں نہ کریں۔ ان کی اطاعت ضرور کرتے لیکن اس شرط پر کہ وہ یعنی ان کے آبائو اجداد سمجھ رکھنے والے اور ہدایت یافتہ بھی تو ہوتے کہ ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت بن جاتی مگر حال یہ ہے کہ ان یعنی کفار کے آبائو اجداد نہ ہدایت پر تھے اور نہ ہی سمجھ رکھتے تھے کہ حق و باطل میں تمیز کرسکتے۔ تقلید : بعض لوگ یہ آیات تقلید آئمہ مجتہدین کے خلاف پڑھ دیتے ہیں جو صریحاً زیادتی ہے ، اور مدلول آیت سے فرار ، بلکہ اس آیت نے تقلید کے لئے دو شرائط پیش کی ہیں۔ ایک یہ کہ عقل رکھتا ہو احکام دین کا استخراج کرسکے اور قرآن وسنت کا علم یعنی ہدایت رکھتا ہو۔ اگر یہ دو وصف نہ ہوں تو اندھی تقلید ہوگی جو باطل ہے ورنہ حق میں تو تقلید ضروری ہے کہ خود قرآن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قول موجود ہے کہ میں نے اتباع کیا اپنے آبائو اجداد ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا۔ ہاں ! خلاف سنت امور میں یا فرائض وواجبات میں احکام الٰہی کے خلاف کرنا اور جاہل باپ دادوں کے رواج کو اپنانا سخت ظلم ہے۔ اس کے ساتھ اگر یہ گمان بھی رکھے کہ صحیح طریقہ یہی ہے جو مروج ہے اور احکام دین معاذ اللہ فضول ہیں تو کافر ہوگا ، جیسے آج کل عموماً کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر یہ کام سنت یا شریعت کے مطابق کروں تو نکٹی ہوگی۔ ایسا کہنے والا ایمان نہیں بچا سکتا۔ اگر خلاف سنت بھی کر گزرے تو کم از کم یہ احساس ضرور ہو کہ حق تو راہ سنت ہے میرا کام غلط ہے تاکہ ایمان تو بچ سکے۔ یہ حال تو مسلمانوں کا ہے تو سراسر باطل پہ جمے ہوئے ہیں اور اپنے کافر اجداد کی پیروی بہ نسبت احکام الٰہی ضروری خیال کرتے ہیں یہ تو ایسے گئے گزرے ہیں کہ ان پر نصیحت کا بھی اثر نہیں ہوتا جیسے کوئی شخص ایسی شے کو پکاررہا ہو جس میں سننے کی صلاحیت ہی نہ ہو ، سوائے چیخ و پکار کے ، بلکہ یہ بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں اور اس کے ساتھ انتہائی بیوقوف اور بےعقل بھی کہ سمع و بصارت کو بھی محض پیٹ بھرنے کے لئے استعمال کرنا تو شرف انسانیت نہیں ہے بلکہ یہاں تک تو سب جانور بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں ان کا مصرف اصلی تو حصول معرفت تھا جس سے یہ محروم رہے تو گویا آنکھ کان رکھتے ہوئے بھی بہرے ، گونگے اور اندھے ہی رہے۔ نیز تمہاری دماغی قوتوں کو بھی محض دنیا کمانے کے لئے ہی صرف کیا حالانکہ یہی قوتیں دلائل حقہ ، کو سمجھنے کا ذریعہ بھی تھیں تو گویا اس نے عقل کو بھی ضائع ہی کردیا۔ غذا کا اثر : اے ایمان والو ! یہ سب چیزیں میں نے تمہیں روزی میں دی ہیں اور نوع انسانی کے لئے یہ سارا نظام ہے مگر یادرکھو ! ان میں سے طیب کھائو یعنی پاکیزہ کہ حلال بھی ہو اور پاک بھی کہ طیب صرف ، حلال ہی نہ ہوگا بلکہ پاک بھی ہو۔ اصل میں انسانی مزاج غذا ہی سے تعمیر پاتا ہے حرام غذا کی ایک خاص نحوست اور کیفیت ہوتی ہے جو اللہ سے دور کرتی ہے اور شیطانی القاء کو قبول کرتی ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ بہت سے طویل السفر اور پریشان حال اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اور یارب ! یارب ! پکارتے ہیں مگر کھانا پینا ، لباس ان کا حرام ہوتا ہے۔ دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے ؟ حرام سے حاصل کی گئی قوت زبان حق بیان نہیں کرسکتی اور کان حق نہیں سن سکتے ، آنکھوں میں حیا نہیں رہتی اور دل میں نور نہیں رہتا۔ انسان پر شیطان کا اثر قوی ہوجاتا ہے اور وہ اسی کے نقش قدم پر چل نکلتا ہے۔ رزق حلال سے ایک نور دل میں پیدا ہوتا ہے حق گوئی اور حق پرستی کی قوت نصیب ہوتی ہے عبادات کے لئے دل میں ذوق پیدا ہوتا ہے اور دل کی آہ عرش تک پہنچتی ہے اور گناہ سے بےرغبتی پیدا ہوتی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اگر تم صری اللہ کی عبادت کرنے والے ہو تو حلال کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو اور محض اپنی طرف سے کوئی شخص قید لگا کر کسی شے کو حرام نہیں کرسکتا بلکہ حرام وہی ہیں جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ حلال و حرام : اللہ نے تو مردار ، خون ، لحم خنزیر اور وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو ، حرام کیا ہے کہ بنیادی طور پر تمام جانوروں کو ان قسموں میں پرکھا جاسکتا ہے جو ان میں سے ہو وہ حرام ، علاوہ ان کے سب حلال۔ سب سے پہلا ہے ھیتہ یعنی مردار۔ اس کی مصداق وہ جانور ہیں جن کے حلال ہونے کے لئے ذبح کرنا ضروری مگر وہ بغیر ذبح کے مرجائیں یا مار دیئے جائیں ، جیسے گلا گھونٹ کر یا پتھر وغیرہ سے ضرب لگاکر اور دوسری قسم مردار کی وہ ہے کہ جانور شرعی طور پر ذبح کرنے سے بھی حلال نہیں ہوتے وہ جب بھی جس حال میں مریں یا مارے جائیں مردار ہوں گے اور ان سے نفع حاصل کرنا یا کھانا جائز نہ ہوگا سوائے ان جانوروں کے جو رسول اللہ ﷺ نے بغیر ذئح کے حلال قرار دیئے ہیں جیسے مچھلی اور ٹڈی۔ ارشاد ہے کہ ہمارے لئے دو مردار حلال کردیئے گئے ہیں ایک مچھلی دوسری ٹڈی اور دو خون حلال کردیئے گئے ہیں جگر وطحال (ابن کثیر) ان میں بھی جو مچھلی سٹر کر پانی کے اوپر آجائے حلال نہیں رہتی۔ نیز ذبح میں ایسے جانور جو شکار کئے جائیں اگر قابو نہ آسکیں تو تکبیر پڑھ کر دھاردار چیز سے زخم لگائیں تو بغیر ذبح کے حلال ہوگا اور وہی اس کے ذبح کا حکم رکھے گا۔ مگر شرط ہے کہ چیز دھار دار ہو اور کاٹے ، توڑے نہیں۔ مثلاً تیر یا خنجر وغیرہ اگر بندوق کی گولی سے جانور مرا تو وہ اس حکم میں ہوگا جیسے لاٹھی یا پتھر کی چوٹ سے مرا ، اس لئے اس کو مرنے سے پہلے ذبح کرنا ضروری ہے۔ بیشک گولی نوکدار ہو کہ کوئی گولی ادھاردار نہیں ہوتی اور نوکدار کی نوک میں بھی کاٹنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ بارود کے زور سے گوشت یا ہڈیوں کو توڑتی ہے۔ ظاہر ہے جیسے مردار کا کھانا حرام ہے اسی طرح اس سے نفع اٹھانا یا کسی دوسرے کو کھلانا بھی ناجائز۔ حتیٰ کہ جانور کو بھی مردار نہ کھلایا جائے بلکہ کسی ایسی جگہ رکھ دے جہاں سے کوئی کتا بلی وغیرہ خود اٹھا کر کھالے۔ ہاں ! مردار کی ہڈی ، کھال ، بال وغیرہ جو چیز کھانے کی نہیں ہے ان سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ جیسے ارشاد ہے ، ” ومن اصوافھا واوبار ھا واشعارھا اثاشا وھتاعالی الی حین “۔ میں مطلقاً اجازت ہے ذبح شرط نہیں۔ ہاں ہڈی خشک ہو ، گوشت یا چربی کا اثر نہ ہو اور کھال کی دباغت کی جائے کہ یہ اثرات نہ رہیں۔ گوشت کی طرح چربی بھی حرام ہے اور مردار کی چربی سے صابن وغیرہ بنانا بھی ناجائز ۔ جیسے اکثر یورپ سے آنے والے صابن وغیرہ میں اس کا احتمال زیادہ ہے بلکہ ممکن ہے خنزیر کی استعمال ہو۔ اس لئے احتیاط ضروری ہے ہاں علم قطعی نہ ہونے کی وجہ سے گنجائش ہے مگر جن ڈبوں پہ لکھا ہو کہ اجزاء خنزیر سے شامل ہیں وہ تو قطعی حرام ہیں۔ دوسرا حرام خون ہے یہاں اگرچہ صرف لفظ دم استعمال ہوا ہے مگر سورة انعام میں ساتھ مسفوح بھی ہے یعنی بہنے والا۔ تو وہ خون جو عندالذبح بہتا ہے حرام ہوگا یازخمی جانور کے زخم سے بہنے والا۔ ہاں بعد ذبح اگر گوشت میں لگارہ گیا تو وہ اس حکم میں شامل نہیں ذبح میں حلقوم کو کاٹے اور گردن کی دونوں رگیں احتیاط سے کاٹے۔ کوئی رگ رہ نہ جائے۔ نیز گردن کو توڑ کر پیچھے مروڑ کر حرام مغز کو کٹنا مکروہ ہے۔ کہ اس کے کٹنے سے دل کی حرکت فوراً معطل ہوجاتی ہے جس سے خون کے جسم میں رہ جانے کا امکان ہے جو قصاب وغیرہ عموماً کاٹ دیتے ہیں کہ اس طرح جانور کے مرنے میں جلدی ہوجاتی ہے نیز خون کا بیچنا بھی حرام ہے۔ خون کا دینا : ایک مسئلہ دور حاضرہ ہے کہ انسانوں کا خون دیا جاتا ہے یہ ایک تو کیا اضطراراً جاتا ہے کہ اس کے بغیر مریض جانبر نہ ہوسکتا ہو۔ دوسرے ٹیکے سے لیا جاتا ہے اور ٹیکے سے رگ میں داخل کیا جاتا ہے اس میں کھانے پینے کا سوال نہیں وہ اس حکم میں نہیں آتا کہ ناجائز ہو۔ ہاں ! اس کی تجارت درست نہیں۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فراہم کرنا چاہیے۔ تیسری شے لحم الخنزیر یعنی کسی بھی حال میں اس کا گوشت تک حلال نہیں۔ باقی تمام اجزاء بھی باجماع امت حرام ہیں کہ یہ نجس العین ہے بلکہ اس کی اجرت لینا تک حرام ہے مثلا کوئی خنزیروں کی چربی پہ نوکر ہو یا کسی کے پالتو خنزیروں کا چوکیدار ہو یا ٹرک وغیرہ میں لاد کر پہنچائے اور اجرت لے یہ سب حرام ہے۔ یہی حکم شراب اور سود کا ہے شراب کی مزدور اور سود کی گواہی تک حرام ہیں۔ وما اھل بہ لغیر اللہ۔ چوتھی شے وہ جانور ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کردیا جائے۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔ اول یہ کہ کوئی جانور غیر اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کیا جائے اور وقت ذبح اسی کا نام لیا جائے یہ جانور مردار ہوگا اور اس کی کسی شے سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی بھی غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جائے اور وقت ذبح اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے۔ یہ بھی حرام اور مردار کے حکم میں ہے اور کسی امام کا اس میں اختلاف نہیں۔ خواہ ہندو یا غیر مذاہب بت یا دیوی دیوتائوں کو خوش کرنے کے لئے کریں یا مسلمان پیروں ، بزرگوں اور اولیاء اللہ کو خوص کرنے کے لئے۔ حکم دونوں کا ایک ہے کہ دونوں میں تقرب غیر اللہ کا مقصود ہے اشتراک علت سے حرام ہوگا۔ نیز یہ وماذبح علی النصب کے حکم میں آکر بھی حرام ہوگا کہ ” نصب “ ان تمام کو کہا جائے گا خواہ اشیاء ہوں یا افراد جن کو الہ مانا جائے یا ان کی وہ عظمت تسلیم کی جائے جو صرف اللہ کا حصہ ہے اور ایسی عاجزی ان کے سامنے کی جائے جو صرف اللہ کے لئے ہے خواہ وہ فرشتہ اور نبی ہی کیوں نہ ہو ، جیسے عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا بیٹا مانے پھرتے ہیں تو اگرچہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے برحق نبی ، مگر عیسائی غیر اللہ کے پجاری قرار پائے۔ اب اگر ان کا تقرب حاصل کرنے کو جانور ذبح کریں گے ۔ خواہ ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لیں ، حرام ہوگا۔ یہی حال پیروں کے مرغوں اور بکروں کا ہے کہ کسی بھی بزرگ کا تقرب چاہنے کے لئے ذبح کرے گا ، حرام قرار پائے گا اور اس کا کھانا ناجائز۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی جانور اللہ کے بغیر کسی اور کے نام پر مختص کردیا جائے اور اسے ذبح کرنا یا بیچنا یا اس سے کام لینا ناجائز تصور کیا جائے۔ وما اھل بہ لغیر اللہ کے حکم میں بھی داخل ہو اور وماذبح علی النصب کے حکم میں بھی۔ ان ہی کو بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کہا گیا ہے نیز ان کے حرام سمجھنے سے جانور حرام نہیں ہوجاتا۔ اگر اس عقیدے سے توبہ کرے تو ذبح کرے یا کوئی دوسرا جو اس گمراہی میں مبتلا نہ ہو مثلاً باپ نے بکرا ، پیر کے نام چھوڑ رکھا مگر بیٹا اس خیال سے متفق نہ ہو اور اللہ کے نام پر ذبح کرے حلال ہوگا۔ ہاں ! اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس جانور کو صدقہ کرکے ثواب کسی بزرگ کو پہنچائے تو اسے اللہ کے نام پر صدقہ کرے اور جو ثواب حاصل ہو وہ مرنے والے کو بخشے درست ہے نیز شرعاً یہ جانور اسی کو ملک ہوتا ہے اگر بیچ دے تو جائز ہے یا ہبہ کرے درست ہے۔ ایسے ہی وہ جانور ، جو ہندو وغیرہ مندروں پر دیتے تو چڑھاوا ہیں مگر پجاریوں کو اختیار دیتے ہیں کہ رکھیں یا بیچیں یا جاہل مسلمان مزارات وغیرہ پر دے کر مجاوروں کو اختیار دے دیتے ہیں ، ان کی خرید وفروخت جائز ہے مگر وہ چیز جو صرف قبر پر رکھ دی جائے یا مزار پر چھوڑ دی جائے تو چونکہ قبر تو مالک نہیں ہوسکتی اس لئے وہ اسی آدمی کی ملکیت رہتی ہے اس کی خریدوفروخت کے لئے مالک کی اجازت ضروری ہے۔ یہی حال نذر اور منت کے جانوروں یا مٹھائیوں کا ہے خواہ ہندو مندر میں دے یا مسلمان مزار پر ، اشتراک علیت یعنی تقرب الیٰ غیر اللہ کی وجہ سے وما اھل لغیر اللہ میں داخل ہو کر حرام ہے اور اس کا کھانا کھلانا بیچنا سب حرام ہیں۔ تفصیل کتب فقہ سے ملاحظہ ہو۔ حرام چیزوں کے بیان کے بعد ایک حکم استثنائی ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک سے قریب المرگ ہے کہ نہ تو کھانے میں لذت کا خواہشمند ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھائے تو اس صورت میں ان حرام چیزوں سے بھی کھالے تو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں یعنی یہ دونوں شرطیں پائی جائیں۔ اول تو بغیر اس شے کے کوئی چیز دستیاب نہیں اور پھر بغیر کھائے یا پئے موت کا اندیشہ ہے اور دوسری شرط یہ ہے کہ نہ لذت طلبی ہو نہ پیٹ بھر کے کھائے صرف اس قدر کھائے کہ موت سے بچ جائے اس صورت میں حرام حلال نہ ہوگا رہے گا حرام ہی مگر اس آدمی پر گناہ نہیں۔ فلا اثم علیہ یعنی اس پر کچھ گناہ نہیں یہی حال حرام دوائوں کا ہے کہ بغیر اس دوا کے چارہ نہ ہو۔ آدمی کو موت کا خطرہ اور اس کے بغیر کوئی صورت ممکن نہ ہو۔ محض معمولی تکلیف میں اور حلال و جائز دوائوں کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی جواز نہیں۔ یہ حکم ان ولایتی دوائوں کا ہے جن میں شراب وغیرہ نجس اشیاء کا ہونا یقینی معلوم ہو جن میں ایسے اجزاء کا وجود مشکوک ہو ان میں اور بھی گنجائش ہے مگر احتیاط بہرحال لازم ہے۔ چونکہ یہ احکام رواجات سے براہ راست متصادم ہیں اور ہر دور میں انسانی کمزوری رہی ہے کہ کسی نہ کسی شے کو آسرا بنائے رکھتا ہے اور اس پر نذر ونیاز چڑھا کر مطمئن ہوجاتا۔ نیز یہی شے راہبوں ، پادریوں اور پیروں کو اظہار حق سے مانع بھی ہے کہ ایک تو رواج سے براہ راست ٹکر لینا مشکل ہے اور دوسرے اس میں کافی آمدن بھی ہے جسے چھوڑنا آسان نہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پیشتر کی امتیں بھی اس مرض کا شکار تھیں اور علمائے سو نے اپنی آمدن کے ذرائع بنا رکھے تھے اور باطل مذاہب کی تو بنیاد ہی یہی چیزیں ہیں مشکل تو یہ تھی کہ آسمانی مذاہب کے ماننے والے بھی اس طوفات میں گھر چکے تھے۔ اور بدنصیبی یہ ہے کہ مرور زمانہ نے مسلمان کو جو اکیلا مذہب حقہ کا وارث ہے اسی دلدل میں پھینک دیا ہے چڑھادے چڑھتے ہیں۔ شیرینیاں بٹتی ہیں اور قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا غریب ادھار لے کر بکرا نذر کرتا ہے کہ ادھار کی مصیبت سے چھوٹ سکے مگر نادان اور دھنستا چلا جاتا ہے اور بڑی بڑی توندوں والے مزار فروش تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ لوگوں کو روکھی سوکھی اور صبر کی تلقین کرکے گھر میں انگریزی کھانے پکواتے ہیں اور لوگوں کو مسجد کی دعوت دے کر گھر میں عریاں فلمیں دیکھتے ہیں ایسے لوگ کب جرات کرتے ہیں کہ ان حقائق سے پردہ اٹھائیں۔ اللہ کریم نے اس جرم کو اور اس کی شدت کو یوں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ احکام الٰہی کو جو اللہ نے کتب میں نازل فرمائے ہیں چھپاتے ہیں اور اس فعل کو ذریعہ آمدن بنائے ہوئے ہیں۔ یا دولت دنیا لے کر احکام شرعی کو بدل دیتے ہیں یہ دونوں باتیں ایک سی ہیں کوئی غیر اللہ کے نام کی نیازیں وصول کرتا رہے اور لوگوں کو یہ یقین دلاتا رہے کہ یہ جائز اور بہت بڑا ثواب ہے یا پیسے لے کر کوئی حکم بدل کر بتائے تو ایسے لوگ سوائے دوزخ کی آگ کے اور کچھ نہیں کھا رہے ہیں یعنی یہ مال بظاہر تو دنیا کا رزق ہے مگر اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ نار جہنم ہے۔ اگرچہ دنیا میں عام انسان کو نظر نہ آرہا ہو۔ دوسری مصیبت اس کی یہ ہے کہ ولا یکمھم اللہ یوم القیمۃ کو روز محشر اللہ کریم ان سے مطلقاً بات نہیں کریں گے اگرچہ بعض کفار اتنی اجازت تو ہوگی کہ عرض معروض کریں گے۔ اور اتمام حجت کے بعد ان پر حکم لگایا جائے گا کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہاری عرض سنی جائے بلکہ دوزخ میں داخلے کے بعد اللہ کو پکاریں گے تو جھڑک ہی سہی جواب تو پائیں گے کہ دوزخ میں بھی نامرادی کا شکار ہو۔ آئندہ مجھے پکارنے کی جرات نہ کرنا۔ مگر ایسے لوگ جو حرام کو حلال بلکہ ثواب بتا کر دولت جمع کرتے رہے ان کو یہ سزا میدان حشہ سے ہی شروع ہوجائے گی کہ خطاب الٰہی سے محروم ہوں گے اور انہیں پاک نہیں کیا جائے گا کہ حدیث شریف میں آتا ہے جب کوئی مسلمان حرام کا مال کھائے تو جو گوشت رزق حرام سے بنے گا اسے دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ پھر اللہ کریم نیا گوشت عطا فرما کر اسے جنت میں داخل فرمائیں گے کہ حرام کا کوئی ذرہ جنت میں نہ جائے گا مگر یہ لوگ اس سے بھی محروم ہوں گے۔ ولایزکیھم۔ ان کو پاک بھی نہ کیا جائے گا اور ان کے لئے عذاب بھی بہت درد ناک ہوگا یعنی بہت سخت اور بہت زیادہ ایذا دینے والا عذاب۔ عام دوزخیوں کی نسبت بہت دکھ دینے والا ہوگا کہ ایسے لوگ جو گمراہی کے بدلے ہدایت کو چھوڑ دیتے ہیں گویا وہ خود معرفت الٰہی کو ٹھکرا کر عذاب الٰہی خریدتے ہیں اور یہ لوگ دوزخ پہ کس قدر صبر کئے بیٹھے ہیں۔ جاہل بزعم خود عیش کر رہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ دوزخ کی آگ کھا کر کون سی عیش نصیب ہوگی اگرچہ یہ بہت سخت سزا ہے مگر یہ بلاوجہ نہیں بلکہ ان کا جرم بھی بہت شدید ہے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ نازل فرمائی کو نوع انسانی کے لئے باعث حیات تھی۔ مگر ان بدبختوں نے محض پیٹ بھرنے کے لئے مزارات اور تعزیے بنا کر لوگوں کو روحانی موت سے ہمکنار کیا اور مٹھائی کا لیبل لگا کر زہر کھلائی اور بجائے احقاق حق کے کتمان حق کے مرتکب ہوئے۔ یہ بہت سخت جرم تھا اور یہ پکی بات ہے کہ جو بھی اللہ کی کتاب میں بےراہ روی اور کج روی اختیار کرے وہ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو اور اسی نسبت سے سخت ترین سزا کا حقدار۔
Top