Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 3
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
(اور ان کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرتے رہے دو باغ ہوں گے۔
4۔ آگے آیات 46۔ 78 کا مضمون مجرموں کا انجام بیان کرنے کے بعد آگے اس صلہ کی تفصیل ہے جو اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کو قیامت میں ملنے والا ہے۔ اس تقابل سے دونوں گروہوں کی پوری تصویر سامنے آگئی ہے۔ نظم کلام بالکل واضح ہے۔ بس اتنی بات یاد رکھنے کی ہے کہ آیات 46۔ 61 میں مقربین کی حیثیت کا بیان ہے اور اس کے بعد کی آیات میں اصحاب الیمین کی جنت کا، ان دونوں گروہوں کے فرق مراتب کی تفصیل اس کے بعد والی سورة الواقعہ میں آئے گی جو اس کی توام سورة ہے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 5۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت۔۔ (ولمن خاف مقام ربہ جنتن فبای الا ربکما تکذبین) (46۔ 47) (مقتیوں کا انجام)۔ مجرمین کے انجام کے بعد یہ متقیوں کا انجام بیان ہو رہا ہے۔ ان کی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ یہ اپنے رب کے حضور پر پیشی سے برابر ڈرتے رہے۔ اس دن کا حوالہ قرآن کے دوسرے مقام میں (یوم یقوم الناس لرب العلمین) (المطففین : 6) کے الفاظ سے آیا ہے، یعنی جس دن لوگ اپنے رب کے حضور میں پیشی کے لیے اٹھیں گے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ انسان کو جادو مستقیم پر استوار رکھنے والی واحد چیز یہی اللہ تعالیٰ کے آگے پیشی کا خوف ہے۔ یہ خوف دل سے نکل جائے تو پھر انسان کو بڑے سے بڑا مجرم بننے سے بھی کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ فرمایا کہ جو لوگ اپنے رب کے حضور جواب دہی سے ڈرتے رہے ان کے لیے دو باغ ہوں گے۔ قرآن میں لفظ ’ جنت ‘ تمام اخروی کامیابیوں کی ایک جامع تعبیر ہے اور دو جنتوں کا ذکر تکمیل نعمت کے طور پر ہوا ہے کہ ایک نہیں بلکہ دو دو جنتیں ان کو ملیں گی۔ سورة کہف آیت 32 میں باغ والے کا جو قصہ ہے اس میں بھی دو باغوں کا ذد کر ہے (جعلنا لا حد ھما جنتین من اعناب وحففنھما بنخل) (الکہف : 32) (ان میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور ان کو گھیرا تھا کھجوروں سے) اس آیت کے تحت ہم نے لکھا ہے کہ یہ دو باغوں کا ذکر اتمام نعمت کے اظہار کے لیے ہے کہ اللہ نے تو اپنے فضل سے اس کو دودو باغ دے رکھے تھے لیکن یہ نعمت اس کے لیے شکر گزاری کے بجائے نا شکری کا سبب بنی)۔ (بلاغت کلام کا ایک نکتہ)۔ اس کے بعد آیت ترجیح ہے اور آگے جنت کی ایک ایک نعمت کے ذکر کے بعد یہ ترجیح آئے گی۔ اس کے موقع پر محل کی بلاغت سمجھنے کے لیے یہ بات یاد رکھیے کہ جن مکذبین سے یہاں خطاب ہے وہ اول تو قیامت کو بہت بعید از امکان چیز سمجھتے تھے اور اگر ایک مفروضہ کے درجے میں اس کو مانتے بھی تھے تو یہ ماننے کے لیے وہ کسی قیمت پر بھی تیار نہیں تھے کہ آخرت کی نعمتوں میں کوئی حصہ ان فتوفقیر مسلمانوں کا بھی ہوگا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر جنت کی فی الواقع کوئی حقیقت ہے تو جس طرح اس دنیا کی تمام نعمتیں ان کو ملی ہیں اسی طرح آخرت کی نعمتیں بھی انہی کو ملیں گی۔ ان کو اس ذہنیت کو اچھی طرح کچلنے اور ان کے غرور کو بالکل پامال کردینے کے لیے یہاں جنت کی ایک ایک نعمت پر ہاتھ رکھ رکھ کے فرمایا ہے کہ یہ ہم اپنیے متقی بندوں کو دیں گے اور ساتھ ہی ان مکذبین سے سوال کیا ہے کہ بتائو تم ہماری کتنی نعمتوں کو جھٹلائو گے ! یہاں تو تم کہتے ہو کہ یہ محض جی کو خوش کرنے کی باتیں ہیں لیکن اس وقت کس طرح تکذیب کرو گے جب ہم یہ ساری چیزیں اپنے بندوں کو دیں گے اور تم اس وقت حسرت سے اپنے سر پیٹو گے۔
Top