Mutaliya-e-Quran - Al-Anfaal : 46
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور لَا تَنَازَعُوْا : آپس میں جھگڑا نہ کرو فَتَفْشَلُوْا : پس بزدل ہوجاؤگے وَتَذْهَبَ : اور جاتی رہے گی رِيْحُكُمْ : تمہاری ہوا وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ تم پست ہمت ہوجاؤ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے اور ثابت قدم رہو بے اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے
اطاعت اللہ و رسول کا ایک خاص مفہو : وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ۔ یہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کے عام مفہوم کے سوا اس کا ایک خاص مفہوم بھی پیش نظر ہے۔ یعنی دشمن کے مقابل میں کامل نظم اور کامل ڈسپلن کا ثبوت دو۔ جو حکم اللہ نے دیے ہیں ان کی بھی پوری اطاعت کرو اور جو حکم رسول دے اس کی بھی بےچون و چرا تعمیل کرو۔ جس طرح دل ذکر الٰہی سے محروم ہو تو اس میں انتشار برپا ہوجاتا ہے اسی طرح جماعت اگر اطاعت میں ڈھیلی ہو تو جماعت کا نظم درہم برہم ہوجاتا ہے اور پھر اس کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ۔ اسی بات کو منفی پہلو سے واضح فرمایا کہ اللہ و رسول کے دیے ہوئے احکام سے اختلاف نہ کرنا ورنہ جماعت میں انتشار برپا ہوگا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے حوصلے پست ہوجائیں گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ یہی وہ ہدایت ہے جس کی غزوہ احد کے موقع پر ایک جماعت نے خلاف ورزی کی اور اس کا تلخ نتیجہ پوری جماعت کو بھگتنا پڑا۔ قرآن نے آل عمران میں اسی کا حوالہ دیا ہے۔ حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر و عصیتم من بعد ما اراکم ما تحبون : یہاں تک کہ جب تم حوصلہ ہار بیٹھے اور تم نے نبی کے حکم میں اختلاف کیا اور تم نے نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھا دی تھی جس کو تم عزیز رکھتے تھے۔ (ال عمران : 152)۔ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۔ وہی بات جو اوپر فاثبتوا کے لفظ سے فرمائی ہے یہاں واصبروا کے لفظ سے فرمائی ہے۔ البتہ اوپر والی بات افراد کو پیش نظر رکھ کر فرمائی گئی ہے اور یہ جماعت کو پیش نظر رکھ کر ارشاد ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی مدد و نصرت اور اس کی معیت کے طالب ہو تو اپنے جماعتی کردار سے اس کا استحقاق پیدا کرو۔ خدا منتشر بھیڑ کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ ان لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو اس کی راہ میں جہاد کے لیے بنیان مرصوص بن کر کھڑے ہوں۔
Top