Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 3
الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو دے رکھا ہے اس میں سے (ایک حصہ ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں
مومن کی چوتھی صفت جو اس جگہ بیان ہوئی وہ نماز کا قیام ہے : 7: اس جگہ جو مومن کی صفات گنائی گئی ہیں ان میں سے چوتھی صفت قیام صلوۃ ہے اور اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنا ہی فقط مراد نہیں بلکہ اقامت نماز کا بیان ہے اور اقامت کے لفظی معنی سیدھا کھڑا کرنے کے ہیں اور اس س سے مراد یہ ہے کہ نماز سے وہ نتجہس حاصل ہوجائے جو اس عبارت کے ادا کرنے کا اصل مقصود ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ : اَقِمِ الصَّلٰوةَ 1ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ 1ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ 1ؕ (العنکبوت 29 : 45) نماز قائم کرو یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ یہ نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصگ ہے جس کی قرآن کریم میں بار بار تاکید کی گئی ہے اور خصوصاً اس موقع و محل کی مناسبت سے اس جگہ نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے۔ مکہ کے اس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں مادی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت درکار تھی اسی اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کی نشونما کے لئے پہلے دو تدبیروں کی نشاندہی کی گئی ایک تلاوت قرآن کریم دوسرے قامت صلوۃ۔ ازیں بعد یہ بتایا جا رہا ہے کہ اقامت صلوۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ ان برائیوں سے پاک ہو سکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گرد و پیش اہل عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہل سوسائٹی اس وقت مبتلا تھی۔ غور کیا جائے تو یہ بات باسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقعہ پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھا کہ یہ بجائے خود ان لوگوں کے لئے دنیا و آخڑت میں نافع ہے جن کو یہ پاکیزگی حاصل ہو بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کو ان سب لوگوں پر برتری حاصل ہوجاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اس ناپاک نظام کو جو ان برائیوں کی پرورش کرتا ہے۔ برقرار رکھنے کے لئے ان پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں۔ فحشاء اور منکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت برا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ خواہ وہ عملاً کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں اور اصولاً ان کو برا ہی سمجھتے ہیں۔ نزول قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلئے سے مستثنیٰ نہ تھا۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے۔ بدی کے مقابلے میں نیکی کی قدر پہچانتے تھے اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخص ہو جو برائی کی بھلائی سمجھتا ہو یا بھلائی کو بری نگاہ سے دیکھتا ہو۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرہ کے اندر کسی ایسی تحریک کا اٹھنا جس سے وابستہ ہوتے ہی خود اس معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہوجائیں ، لامحالہ اپنا اثر کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہل تعصّبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر ان لوگوں کا ساتھ دیتے چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہلیت کے اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے لڑا رہے تھے جو ان برائیوں کو صوبوں سے پرورش کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی تاکہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کرلیں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیر و تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دے دے۔ صلوۃ کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا وصف لازم ہے یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے اور دوسرا اس کا وصف مطلوب ہے یعنی یہ کہ اس کے ادا کرنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے نماز لازماً یہ کام کرتی ہے جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیئے جتنے بریک بھی لگانا ناممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے۔ آخر اس سے بڑھ کر موثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت اللہ کی یاد کے لئے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تو اس دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک اللہ کا بندہ ہے اور تیرا اللہ وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں ور نیتوں تک سے واقف ہے اور ایک وقت ضرور ایسا آتا ہے جب تجھے اس اللہ کے سامنے پیش ہو کہ اپنے اعمال کی جواب دہی کرتا ہے۔ پھر صرف اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کی جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہر نماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جائے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے اللہ کے کسی حکم کے خلاف ورزی نہ کرے۔ غور کرو کہ نماز کے لئے اٹھنے کے وقت سے لے کر نماز وختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے سوا اور اللہ کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہے کہ اس شخص نے اللہ کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے۔ مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہے اور وہ نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور اللہ کے سوا آخر کسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کی بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور اللہ کے سوا کسی پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانون خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جاری ہے اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جارہا ہے اسے فرض شناس انسان بنایا جارہا ہے اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جا رہی ہے کہ وج خود اپنے جذبہ اطاعت کے ذریعہ اثر خفیہ اور اعلانیہ ہر حال میں اس قانون کو پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ در حقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملہ میں اس درجہ موثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رکتا ہے یا نہیں ؟ تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاح نفسی کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مرتب ہوں گے ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہ ہو یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن بننے دے اگر کوئی شخص ہر کھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکالتا جائے تو اس طرح کا کھانا اس لیئے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لا کر آپ یہ کہہ سکتے کہ غذا موجب تغزیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخل کھانمے کے باوجود سوکھتا چلا جا رہا ہے اس طرح بد عمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخل نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھا کر قے کردینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت کھانا نہیں کھاتا۔ یہی بات نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے چناچہ عمران بن حصین کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : من لم تنھم صلوتہ عن الفحشاء والمنکر فلا صلوٰۃ لہ (جسے اس کی نماز نے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے۔ ) (ابن ابی حاتم) اور اس طرح ابن عبش ؓ نے نبی کریم ﷺ کا ایہ ارشاد نقل کیا ہے کہ من لم تنھم صلوتہ عن الفحشاء والمنکر لم یزددبھا من اللہ الا بعدا۔ جس کی نماز نے اسے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دور کردیا۔ (ابن ابی حاتم ، طبرانی) ( اور یہی مضمون حسن بصری (رح) نے بھی نبی کریم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ (ابن جریر) اور ابن مسعود ؓ نے نبی کریم ﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ لا صلوٰۃ لمن لم یطع الصلوٰۃ وطاعۃ الصلوٰۃ ان تنھی عن الفحشاء والمنکر۔ اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رک جائے۔ (ابن جریر ، ابن ابی حاتم) اور اس مضمون کے متعدد اقوال عبداللہ بن مسعود ؓ ، عبداللہ بن عباس ؓ ، حسن بصری (رح) ، قتادہ (رح) اور اعمش (رح) وغیرہ سے منقول ہیں اور امام جعفر صادق (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں تو اسے دیکھنا چاہئے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء و منکر سے کہاں تک بازرکھا ہے اگر نماز کے سبب سے وہ برائیوں سے رک گیا ہے تو یقیناً اس کی نماز قبول ہے اور اگر نہیں روکا تو یقیناً اس کی نماز قبول نہیں ہوئی۔ (روح المعانی) اور بلاشبہ اس کی کسوٹی پر آج نمازی اپنی نماز کو پیش کر کے دیکھ لیں تو بات ان پر پوری طرح روشن ہوجائے گی۔ کاش کہ آج کے پیش امام بھی اس اصول پر اپنی نماز کو رکھ ریکھیں کہ ان کا اپنا کیا حال ہے ؟ مومن کی پانچویں صفت اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے : 8: مومن کی پانچویں صفت جو اس جگہ بیان کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے اور اس جگہ یہ حکم عام ہے یعنی تمام صدقات و خیرات میں خواہ وہ زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ہو جو لازم و ضروری ہے جو فرائض میں داخل ہے اور خواہ نفلی صدقات تبرعات ہوں اور اسی طرح دوستوں اور بزرگوں کی مالی خدمت بھی ہے اور یہ بات قابل ازیں بھی عرض کی جا چکی ہے کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک عمل کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے اس لئے اس جگہ بھی مطلب یہی ہے کہ جو پاک رزق ہم نے ان کو بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اولاد ، اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا ، رشرہ داروں ، ہمسائیوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا ، رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لینا اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے مال ایثار کرنا سب اس سے مراد ہیں۔ بےجا خرچ اور عیش و عشرت کرنا اور اس طرح ریا کارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن کریم انفاق قرار دیتا ہے بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف و تبذیر ہے اس طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے مگر قرآن کریم کی زبان میں اس خرچ کا نام بھی انفاق نہیں ہے بلکہ وہ اس کو بخل اور شح نفس سے موسوم کرتا ہے۔
Top