Tadabbur-e-Quran - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
(ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس مال میں سے جس میں اس نے تم کو امین بنایا ہے۔ پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں اور خرچ کریں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے
2۔ آگے آیات 7۔ 15 کا مضمون آگے ان مسلمانوں کو مخاطب فرمایا ہے جو کلمہ پڑھ کر اور سمعنا واطعنا کا اقرار کرکے مسلمانوں کے زمرے میں شامل تو ہوگئے تھے لیکن جب انفاق و جہاد کا مرحلہ سامنے آیا تو وہ ایمان کے تقاضے پورے کرنے میں بودے ثابت ہوئے۔ اس طرح کے کمزور مسلمانوں کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے آئینہ میں اپنے کردار کا جائزہ لیں اور جس ایمان کا انہوں نے اظہار کیا ہے اسکے مطالبے پورے کریں۔ آج اگر وہ چاہیں تو رسول کی دعوت انفاق و جہاد پر لبیک کہہ کر اپنے مقام سابقین اسلام کی صفت میں محفوظ کرسکتے ہیں ورنہ یاد رکھیں ان کا حشر منافقین کے ساتھ ہوگا اور جو فرصت آج وہ کھو دیں گے اس کے پا سکنے کا پھر کوئی امکان باقی نہیں رہے گا۔ 3۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (امنوا باللہ ورسولہ وانفقو مما جعلکم مستخلفین فیہ فالذین امنوا منکم وانفقوا لھم اجر کبیر (7)۔ (عام خطاب سے منافقین کو تنبیہ)۔ امنوا کا خطاب اگرچہ بظاہر عام ہے لیکن آگے قرآئن سے واضح ہوجائے گا کہ روئے سخن در حقیقت خام قسم کے مسلمانوں اور منافقین کی طرف ہے جو اللہ اور رسول پر ایمان کا دعویٰ تو کر بیٹھے لیکن جب اس ایمان کے مطالبے، انفاق اور جہاد کی صورت میں، سامنے آئے تو ان سے کترانے اور منہ چھپانے لگے۔ اس طرح کے مدعیان ایمان سے خطاب کر کے فرمایا کہ اللہ و رسول پر ایمان لائو۔ ظاہر ہے کہ یہاں فعل امنوا اپنے حقیقی اور کامل معنی میں ہے جس طرح (یایھا الذین امنوا امنوا) (اے وہ لوگو جو ایمان کے مدعی ہو سچا اور پکا ایمان لائو) میں ہے۔ فعل کے اپنے ابتدائی معنی اور اپنے کامل معنی میں استعمال کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ (ایمان کا لازمی تقاضا)۔ (انفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ) اس ایمان کا لازمی تقاضا بھی بیان ہوا ہے اور اسکی نہایت واضح عقلی اور فطری دلیل بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول پر ایمان کا حق صرف (امنا باللہ ورسولہ) کے اقرارو اظہار سے نہیں ادا ہوجاتا بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جب اللہ کی راہ میں مال و جان کی قربانی کی دعوت دی جائے تو اس پر لبیک کہو۔ جو لوگ مال بھی خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ان سے جان کی قربانی کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے ! اور جو نہ مال قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں نہ جان، ان کے دعوئے ایمان کی کیا وقعت ہے۔ (مال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے)۔ (مما جعلکم مستخلفین فیہ) یعنی اس مال کے متعلق تمہیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تم نہ تو اس کے خالق ہو نہ مالک بلکہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں اس میں خلیفہ بنایا ہے کہ تم اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر اس میں تصرف کرو اور اس کے حضور میں اس کی پائی پائی کی جواب دہی کے لیے تیاررہو۔ مطلب یہ ہوا کہ جب تم اس مال کے خالق ومالک نہیں بلکہ صرف اس کے امین ہو تو جب اس مال کے خرچ کرنے کا مطالبہ اسی کی طرف سے ہو رہا ہے جس نے تم کو اس کا امین بنایا ہے تو اس فسفے نجالت کرنے کا کیا معنی ؟ (نفاق ایمان کی تصدیق)۔ (فالذین امنوا منکم وانفقوا لھم اجر کبیر) یہاں (امنوا) کے بعد (انفقوا) ایمان کی تصدیق اور شہادت کے طور پر آیا ہے۔ یعنی جو لوگ ایمان کا اظہار کرنے کے بعد اپنے انفاق سے اپنے اس اقرار کی تصدیق کردیں گے وہ مطمئن رہیں کہ ان کا یہ سودا خسارے کا سودا نہیں ہے بلکہ اللہ کے ہاں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے، وہ ایک کا دس پائیں گے تو ایسے نفع بخش کاروبار میں سرمایہ لگانے سے وہ کیوں گھبرائیں۔ یہاں وہ بات یاد رہے جس کی طرف اوپر ہم نے اشارہ کیا ہے کہ سورة کی تمہید میں جو صفات الٰہی بیان ہوئی ہیں وہ بمنزلہ ایک آئینہ کے ہیں تاکہ اس کو سامنے رکھ کر وہ لوگ اپنے اخلاق و کرار کو سنواریں جنہوں نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے۔ اوپر ارشاد ہوا ہے کہ اللہ ہی اول و آخر ہے اور ساری چیزیں اسی کی طرف لوٹنے والی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اصل حقیقت یہ ہے کہ تو اس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی حاصل ہوا ہے وہ اس کا مالک نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا امین ہے تو جب اصل مالک اللہ ہے تو اس کا مال اسی سے دریغ رکھنے کے کیا معنی !
Top