Tadabbur-e-Quran - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
(اے ایمان والوں، اللہ سے ڈرو اور چاہیے کہ ہر نفس اچھی طرح جائزہ لے رکھے اس کا جو اس نے کل کے لیے کیا ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو ،
6۔ آگے آیات۔ 18۔ 24 کا مضمون آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں جن میں خطاب اگرچہ نفطا ً عام مسلمانوں سے ہے لیکن روئے سخن خاص طور پر منافقین ہی کی طرف ہے۔ ان کو متنبہ فرمایا ہے کہ ہر شخص کے لیے سب سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ کل جو روز حساب آنے والا ہے اس کے لیے اس نے کیا کیا اور کیا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے ہر قول و فعل سے اچھی طرح باخبر ہے۔ وہ ہر ایک کو اس کے ایک ایک عمل کا بدلہ دے گا۔ ساتھ ہی ان کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ یہود کی طرح اللہ کو بھلا نہ بیٹھو۔ جو لوگ اللہ کو بھلا بیٹھتے ہیں وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ وہ خود اپنے ہی خبر و شر سے بالکل اندھے پن کے رہ جاتے ہیں۔ یاد رکھو کہ اہل دوزخ اور اہل جنت کے درمیان جو فرق ہوگا وہ کوئی معمول فرق نہیں ہوگا کہ اس کو سہل انگاری سے نظر انداز کردیا جائے بلکہ یہ بہت بڑا فرق ہوگا۔ فوز و فلاح صرف اہل جنت کو حاصل ہوگی۔ دوسروں کے لیے ابدی خسران کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر ان کو یہ آگاہی بھی دے دی گئی ہے کہ جہاں تک اتمام حجت کا تعلق ہے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے کہ لوگ اللہ کے آگے کوئی عذر پیش کرسکیں۔ یہ قرآن جو سنایا جا رہا ہے، ایسی چیز ہے کہ اگر یہ پہاڑ پر بھی اتارا جاتا تو وہ بھی اپنی تمام سختی و صلابت کے باوجود خشیت الٰہی سے شق ہوجاتا۔ جن کے دل اس سے متاثر نہیں ہو رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ قرآن کا قصور نہیں ہے بلکہ یہ خود ان کے دلوں کی قساوت ہے کہ وہ اس سے پسیج نہیں رہے ہیں۔ اس طرح کے قسی القلب کسی چیز سے بھی متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا آئینہ لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے حاضر و مستقبل، اپنے خیر و شر، اپنے عقائد و اعمال اور اپنے مال و انجام کا جائزہ لیں اور اپنے ظاہر و باطن کو اپنے رب کی صفات کے تقاضوں کے مطابق بنائیں اور سنواریں ورنہ وہ اپنے وجود کو اپنے لیے لعنت بنا لیں گے اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 7۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون) (18)۔ (روز حساب کی یاددہانی)۔ خطاب، با عتبار الفاظ، اگرچہ عام مسلمانوں سے ہے لیکن موقع و محل بتا رہا ہے کہ روئے سخن اصلاً ان منافقین ہی کی طرف ہے جن کی کمزوریاں اس سورة میں شروع سے زیر بحث ہیں۔ ان کو آخر میں گویا اس حقیقت الحقائق کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جس سے غفلت نفس کی تمام بیماریوں کی جڑ اور جس کی یادداشت ہی انسان کی تمام عقلی و روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا واحد علاج ہے۔ فرمایا کہ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، تمہارے ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اپنے رب سے ڈرتے اور اپنے اعمال کا برابر جائزہ لیتے رہو کہ کل جو روز حساب آنے والا ہے اس کے لیے تم نے کیا تیاری کی ہے۔ ڈرتے رہو کی تاکید اس لیے فرمائی کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ پڑا رہے کہ یہ دنیا کوئی کھیل تماشا ہے جو یوں ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ یوں ہی نہیں ختم ہوگا بلکہ اسکے بعد جزا و سزا بھی ہے جو لازمی ہے۔ روز قیامت کو لفظ ’ غد ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جس سے مقصود اس کے قرب اور اس کی قطعیت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے میں دفع الوقتی سے کام نہ لو کہ ابھی بہت دن پڑے ہیں۔ جب وقت قریب آجائے گا تو دیکھ لیں گے۔ وہ دن دور نہیں ہے جس طرح آج کے بعد کل ہے اسی طرح اس کو بھی آیا ہی سمجھو۔ (واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون) معاملہ کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے (اتقوا اللہ) کو پھر دہرایا اور اس کے بعد اس حقیقت کو یاددہانی فرمائی کہ اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارے کسی عمل سے بیخبر ہے۔ وہ تمہارے ایک ایک قول و فعل سے واقف ہے اس وجہ سے سلامتی اسی میں ہے کہ جو کچھ کرو یہ پیش نظر رکھ کرو کہ تمہارے یہ عمل خدا کے علم میں رہے گا اور ایک دن تمہیں اس کی جزا یا سزا ملنی ہے۔
Top