Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ڈرو تم اللہ سے اور ہر شخص کو چاہیے کہ وہ خود دیکھ لے کہ اس نے کیا سامان کیا ہے آنے والے کل کے لئے اور ڈرتے رہا کرو تم (ہر حال میں اپنے) اللہ سے بیشک اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو
[ 46] تقویٰ و پرہیزگاری وسیلہ نجات و سرفرازی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے۔ سو یہود و منافقین کے حالات کے بیان کے بعد اب اہل ایمان کو خطاب کرکے ان کو خاص ہدایات سے نوازا جا رہا ہے کہ اعداء و مخالفین کے عیوب ذکر کرنے کے بعد نصیحت زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے، اور ان کو خطاب بھی وصف ایمان کے ذکر کے ساتھ فرمایا گیا ہے، کہ اس میں ان کے لئے اعزاز بھی ہے کہ ایمان ہی ان کی اصل پہچان اور سب سے بڑی نعمت ہے۔ نیز اس میں تقویٰ و عمل کی ترغیب بھی ہے کہ یہی چیز تمہارے لائق، اور تمہارے صف ایمان کا لازمی تقاضا اور اس کا نتیجہ وثمرہ ہے یعنی تمہارے ایمان کا تقاضا ہے کہ تم ایسے اور ایسے رہو، اپنا محاسبہ خود کر کہ آگے حساب ہر کسی کو خود دینا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا۔ { حاسبوا انفسکم قبل ان یحاسب علیکم وزبوا اعمالکم قبل ان توزن علیکم } کہ تم لوگ اپنا محاسبہ خود کرتے رہو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ دوسروں کی طرف سے لیا جائے اور تم اپنے اعمال کا وزن خود کرتے رہو، قبل اس سے کہ ان کا وزن کسی اور طرف سے کیا جائے، سبحان اللّٰہ ! کتنا عظیم الشان نسخہ اور گُر ہے جو ارشاد فرمایا گیا ہے، جس سے خود بخود اصلاح ہوتی رہتی ہے، اور وہ صحیح راستے پر گامزن رہتا ہے، مگر مسلمان اس سے غافل ہے، الا ما شاء اللہ والعیاذ باللّٰہ جل و علا سو تقوی و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ وسیلہ اور نجات کا باعث ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، [ 47] اپنا محاسبہ خود کرنے کی تعلیم و تلقین کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہر شخص دیکھ لے کہ اس نے آنے والے کل یعنی قیامت کے لئے کیا سامان کیا ہے، کیونکہ وہاں پر ہر کسی نے اپنا حساب خود دینا ہے اور اپنے کئے کرائے کا صلہ بدلہ خود پانا ہے، کوئی کسی کے کچھ کام نہیں آسکے گا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا۔ { یوم لا تملک نفس لنفس شیئًا ط والامر یومئذ للّٰہ } [ الانفطار : 29 پ 30] یعنی اس روز کوئی شخص کسی کے کچھ کام نہیں آسکے گا اور اس روز معاملہ سب کا سب اللہ ہی کیلئے اور اسی کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہوگا، اور نہ ہی اس روز کوئی کسی کا کوئی بوجھ اٹھائے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { ولا تزرو وازرۃٌ وزر اخرٰی } [ بنی اسرائیل : 15 پ 15] یعنی اس روز کوئی بوجھ اٹھا نے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا " پس ہر کوئی اپنا محاسبہ خود کرے اور اپنے بارے میں خود دیکھ لے کہ وہ آنے والے کل کیلئے کیا کر رہا ہے، اور اس یوم عظیم کے بارے میں وہ خود دیکھ اور سوچ لے، سو اس ارشاد عالی میں اپنا محاسبہ خود کرنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی۔ اور یہ ایسی اہم اور انقلاب آفرین تعلیم ہے کہ اس سے انسان کی خود بخود اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ اور اس طرح وہ لگا تار بہتر سے بہتر کی طرف بڑھتا اور ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ [ 48] دنیا آج، اور قیامت آنے والا کل : سو اس ارشاد سے واضح فرمایا دیا گیا قیامت کا قیام ووقوع آنے والے کل کی طرح قطعی یقینی ہے۔ اور غدٍ یعنی آنے والے کل کے اس لفظ سے کئی اہم اور بنیادی درس ملتے ہیں، ایک یہ کہ قیامت کا آثار ایسا ہی یقینی اور قطعی ہے جیسا کہ آج کے بعد کل کا آنا یقینی اور قطعی ہے، نیز اس کا آنا اتنا ہی قریب ہے، جیسا کہ کل کے دن کا آنا آج کے اعتبار سے، کہ آج کا دن ختم ہوتے ہی کل کا دن آپہنچتا ہے۔ اسی طرح اس دنیا کے ختم ہوتے ہی آخرت اور قیامت کا وہ جہاں آپہنچے گا، جس سے دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ خبردار کر رہی ہیں، لہٰذا جس طرح آج اور کل کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، اسی طرح دنیا اور آخرت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، ایک کے ختم ہوتے ہی دوسری نے آپہنچنا ہے، اور اس کو دور نہ سمجھا جائے کہ آنے والی چیز نے بہرحال آکر ہی رہنا ہے۔ کل ماھو اتٍ فھوات۔ یعنی جس ثیز نے آنا ہوتا ہے وہ بہرحال آکر ہی رہتی ہے، نیز کسی بھی جی کو یہ پتہ نہیں کہ اس کے نہار زندگی کی شام کب، کہاں اور کیسے ہوجائے، اور " غدٍ " کی تنکیر اس کی تعظیم و تفحیم کے لئے ہے، کہ اس آنے والے کل کی شدت اور اس کی کنہہ و حقیقت کو اللہ پاک کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جس کے بارے میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ اس ہولناک دن کا شر ہر طرف پھیل رہا ہوگا۔ { یوفون بالنذر ویخافون یوما کان شرہٗ مشتطیرًا } [ الدہر : 7 پ 29] اللہ اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ اس ہولناک دن اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں یاد رکھا جائے اور اس کے لئے تیاری کی جائے، کہ اس کیلئے تیاری کا موقع اور اس کی فرصت یہی دنیاوی زندگی اور اس کی فرصت محدود ہے اور بس، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، [ 49] تقویٰ و پرہیزگاری کی تاکید مکرر کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور تاکید کیلئے مکرر ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے۔ سو یہ تکرار تاکید کے لئے ہے، کہ تقوی ہی اصل اور اساس و مدار ہے، فلاح و صلاح کا، اور یہی ذریعہء نجات اور باعش فوز و فلاح ہے، اللہ نصیب فرمائے اور بدرجہ تمام و کمال نصیب فرمائے، آمین ثم آمین، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ دنیا کوئی کھیل تماشا ہے جو یونہی ختم ہوجائے گا، نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد ایک یوم جزا آنے والے ہے جس میں ہر کسی نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا صلہ و بدلہ پانا ہے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ تم لوگ اس یوم عظیم کے تقاضوں کو ہمیشہ اور پیش نظر رکھو، اور اس کے لئے تیاری کرو قبل اس سے کہ فرصت حیات تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے، اور تم کو ہمیشہ کیلئے پچھتانا پڑئے، والعیاذ باللّٰہ۔ سو حکمتوں بھری اس دنیا اور اس کے مخدوم ومطاع انسان کے وجود اور اس کی زندگی کا بدیہی تقاضا اور لازمی نتیجہ ہے کہ وہ یوم جزاء آئے تاکہ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے لئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بدرجہء تمام و کمال پورے ہوں۔ ورنہ اس کائنات کا وجود عبث اور بیکار قرار پاتا ہے۔ جو کہ اس کے خالق حکیم کی حکمتوں کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، ملہم الصدق والصواب، [ 50] اللہ تعالیٰ کے علم و آگہی کی تذکیر و یاددہانی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف " اِنَّ " کی تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو۔ پس تم لوگ خود دیکھ لو کہ تم کیا کر رہے ہو، کہ کل اپنے رب کی حضور تمہیں اس سب کا جواب دینا ہوگا اور اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا پھل پانا ہوگا، اور وہاں اپنے ایمان و عمل کے سوا کچھ بھی کام نہیں آسکے گا جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، چناچہ سورة شعرا میں ارشاد فرمایا گیا۔ { یوم لا ینفع مال ولا بنون، الا من اتی بقلب سلیم } [ الشعرا : 89-88 پ 19] یعنی اس روز نہ کسی کا مال اس کے کچھ کام آسکے گا اور نہ ہی اس کے بیٹے، سوائے اس کے جو قلب سلیم کے ساتھ اس کے یہاں حاضر ہو، پس کوئی کبھی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا کسی کو پتہ نہیں، اور اس بارے کسی نے پوچھنا نہیں، بلکہ حق اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہارے ایک ایک عمل سے باخبر ہے اور تمہارے ہر قول و فعل کا باضابطہ طور پر ریکارڈ تیار کیا جا رہا ہے، جس کی تم نے اپنے وقت پر جوابدہی کرنی اور پورا بھگتان بھگتنا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا، پس ہمیشہ اپنے اس خالق ومالک کی رضا و خوشنودی ہی کو اپنے پیش نظر رکھا جائے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال،
Top