Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 45
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ؕ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَقُطِعَ : پھر کاٹ دی گئی دَابِرُ : جڑ الْقَوْمِ : قوم الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا (ظالم) وَ : اور الْحَمْدُ : ہر تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
پس ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ اور شکر کا سزا وار حقیق اللہ ہے تمام عالم کا رب !
کسی قوم کی جڑ کب کٹتی ہے ؟ ‘ دابر ’ کے معنی اصل اور جڑ کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب مکذبین رسول اپنی بدمستی کی اس حد کو پہنچ جاتے ہیں تب ایسے ظالموں کی خدا جڑ کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف نہایت لطیف اشارہ ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کے مجرموں پر ابتلا کے جو جھنکے آتے ہیں ا سے ان کے شجر ہستی کے صرف برگ و بار متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی وقتی طور پر ان کی جڑ محفوط رہتی ہے لیکن جب یہ وقت آجاتا ہے تو خدا ان پر عذاب بھیجتا ہے جو ان کے وجو قومی ہی کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کے پھینک دیتا ہے اس لیے کہ جو درخت زہریلا ہوچکا اور اب صرف زہریلے ہی پھل دے رہا ہے اس کا باقی رہنا اس دنیا کی مصلحت کے خلاف ہے جو اس کے رحمان و رحیم خالق ومالک نے اپنی رحمت اور اپنے دل کے ظہور کے لیے بالحق پیدا پیدا کی ہے۔ وہ عالم کا رب ہے۔ رب کس طرح گوارا کرسکتا ہے کہ وہ اپنے چمن میں ایک ایسے درخت کو جگہ گھیرے رکھنے کے لیے چھوڑ دے جس کی زہریلی ہوا اور جس کے مسموم برگ و بار پورے چمن کو غارت کر کے رکھ دیں۔ پس حمد و شکر کا سزا وار ہے وہ رب العالمین جو ایسی نابکار قوموں کی جڑ کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔ اجزا کی تشریح کے ذیل میں آیات کا نظم اور مدعا واضح ہوگیا ہے البتہ جس سنت اللہ کا یہاں حوالہ ہے اس کی تاریخی شہادت کی طرف یہاں صرف اشارہ ہے، اس کی تفصیل نہیں آئی ہے۔ یہ تفصیل آگے والی سورة اعراف میں آئے گی جو اس سورة کے، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، مثنی کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں عرب کی پچھلی معذب قوموں کی تاریخ بیان ہوئی ہے جس سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ان قوموں نے بھی اپنے اپنے رسولوں سے عذاب کی نشانیوں کا مطالبہ کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دلوں کو نرم کرنے اور ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ان کو مختلف مالی و جسمانی آزمائشوں میں مبتلا کیا لیکن انہوں نے ان سے سبق لینے کے بجائے ان کو اتفاقی حوادث پر محمول کر کے بالکل نظر انداز کردیا۔ ان کی اس سرکشی کے بعد خدا نے ان کو پوری ڈھیل دے دی۔ ہر راہ میں ان کو کامیابی ہی کامیابی نظر آنے لگی۔ شیطان نے ان کو پٹی پڑھائی کہ جس راہ پر چل رہے ہو یہی کامیابی کی راہ ہے، شاباش، آگے بڑھے چلو۔ بالآخر جب ان کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آنے لگا اور کامیابیوں کے نشہ نے ان کو بد مست کردیا تو دفعۃ خدا کے عذاب نے ان کو آدبوچا اور ان کا سارا نشہ ہرن ہوگیا۔ مطلب یہ ہے کہ یہی مرحلہ تمہارے جھٹلانے والوں اور تم سے عذاب کی نشانی مانگنے والے کو بھی درپیش ہے۔ اگر انہوں نے حالات سے سبق نہ لیا تو وہی تاریخ یہ بھی دہرائیں گے۔ تم مطمئن رہو۔
Top