Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 45
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ؕ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَقُطِعَ : پھر کاٹ دی گئی دَابِرُ : جڑ الْقَوْمِ : قوم الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا (ظالم) وَ : اور الْحَمْدُ : ہر تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اس طرح اس گروہ کی جڑ کاٹ دی گئی جو ظلم کرنے والا تھا اور تمام ستائشیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے
اس مایوسی کے عالم میں ہی ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے : 69: بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم ظلم اور بد عملی میں مبتلا ہوتی ہے اس پر بھی ہر طرح کی خوشحالیاں اسے ملتی رہتی ہیں تب لوگ دھوکے میں پڑجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ظلم و بد عملی کے نتائج کیا ہوئے ؟ یہ تو سب بس ہاتھ نہ پہنچنے والوں کے ڈھکو سلے ہیں۔ حالانکہ یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ جزاء و عمل کا قانون موجود نہیں بلکہ اس لئے کہ اللہ نے ہرچیز کی طرح مفاسد کی نشونما اور بلوغ کے لئے بھی مقدار و اوقات کا قانون ٹھہرا دیا ہے جب تک وہ وقت نہیں آتا نتائج آشکارا نہیں ہوتے۔ اس حقیقت کی طرف پچھلی آیت میں اشارہ ہے اور اس آیت میں بس کام تمام ہوجانے کی اطلاع ، فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب عام آیا تو ظالموں کی نسل تک قطع کر کے رکھ دی گئی اور قوم کی قوم کا کام تمام کردیا گیا کہ ( نہ رہے بانس نہ بجے بانسری) فرمایا اس طرح ظالم ہٹا کر ظلم مٹا دیا جاتا ہے۔ خلق خدا کی زبان پر خدا کی ستائش بےساختہ جاری ہوجاتی ہے : 70: آیت کے اس حصہ میں اس طرف اشارہ فرمادیا گیا کہ مجرموں اور ظالموں پر جب کوئی عذاب و مصیبت آئے تو پورے عالم کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ثابت ہوتا۔ اس لئے ظالم قومیں جن کی چیرہ دستیوں سے اللہ کی مخلوق تنگ آچکی ہوتی ہے۔ جب تباہ و برباد کردی جاتی ہیں تو ہر طرف اطمینان اور آرام کا سانس لیا جاتا ہے اور واقعی وہ لمحہ اس قابل ہوتا ہے کہ مظلوم اور ستم رسیدہ لوگ اپنے رب کریم کی حمد وثناء کے گیت گائیں اس لئے کہ اس نے ان کی بےکسی اور بےبسی پر ترس کھا کر ان کو ان جابر ظالموں کی قید غلامی سے نجات بخشی۔ آج پوری دنیا کے لوگوں کو چند ملکوں نے ایک قوم بن کر ظلم کی چکی ہیں اس طرح پیسنا شروع کیا ہے جس طرح غلہ کی چکی غلہ کو پیستی ہے۔ بلاشبہ اس وقت قوم مسلم پر یہ عمل جاری ہے اور مسلمان ہیں کہ غلے کی طرح پستے جا رہے ہیں اور اس ظلم عظیم کو اللہ کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ کب اٹھتا ہے ؟ لیکن اس کو اٹھتے دیر کب لگتی ہے ؟ ہاں ! اس کا وقت یقیناً مقررومتعین ہے اور وہی جانتا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا ہم تو ایمانیات کے باعث اس بات کا اعلان کرسکتے ہیں کہ وہ یقیناً اٹھے گا اور جب اٹھے گا انشاء اللہ ظالم رہے گا نہ اس کا ظلم۔ دونوں ایک ساتھ نابود ہوجائیں گے۔ اس وقت 1995 ء جا رہا ہے اور قوموں کی زندگی و موت کے لئے ایک سو سال کوئی زیادہ مدت نہیں ہے اور خطرہ کی گھنٹی یقیناً بج چکی ہے اور یہ تائید ایزدی کی بصیرت کا فیصلہ ہے وحی ہے نہ الہام۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انیسویں صدی میں اب تک پوری دنیا دو بار خوفناک عالمی جنگ کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ پہلی جنگ عظیم 1914 ء سے 1918 ء اور دوسری عالمی جنگ 1939 ء سے 1945 ء تک۔ بس اس خوفناک عالمی جنگ کے دفاع کے لئے وہ چکی تیار کی گئی کہ کچھ پسنے والے ہوں اور کچھ پیسنے والے تاکہ عالمی جنگ کا خطرہ ٹلا رہے اور اس کا باقاعدہ انتظام کیا گیا اور اس چکی کے پاٹ تیار کرنے والے امریکہ کے اس وقت کے صدر مسٹر روز ویلٹ اور برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چرچل تھے۔ تفصیل اس کی کسی مناسب مقام پر ہوگی۔ ان شاء اللہ
Top