Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 55
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ : اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِتَسْتَبِيْنَ : اور تاکہ ظاہر ہوجائے سَبِيْلُ : راستہ طریقہ الْمُجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
اور اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان کی روش بھی واضح ہوجائے اور مجرموں کا رویہ بھی بےنقاب ہوجائے۔
یہاں وَلِتَسْتَبِيْنَ کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ اگر پوری بات کھول دی جائے تو یوں ہوگی وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ المومنین وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ۔ اس قسم کے حذف کی متعدد مثالیں گزر چکی ہیں۔ اوپر تفصیل سے بیان ہوا کہ جو لوگ ایمان نہیں لاا چاہتے ان کی روش کیا ہوتی ہے اور جو ایمان لاتے ہیں ان کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔ آخر میں یہ اشارہ فرما دیا کہ یہ ساری تفصیل ہم نے اسی لیے سنائی ہے کہ تم پر دونوں کی روش اور دونوں کا انداز فکر واضح ہوجائے تاکہ بلا سبب کوئی چیز وجہ پریشانی نہ بنے۔ اگلی آیات 56 تا 67 کا مضمون : آگے وہی مضمون جو اوپر سے چلا آ رہا ہے نئے انداز اور نئے پہلوؤں سے بیان ہوا ہے۔ پہلے پیغمبر ﷺ کی زبان سے اعلان کرایا ہے کہ تم خدا کے شریک ٹھہراتے ہو اور اس شرک کی حمایت میں مجھ سے لڑتے ہو لیکن مجھے ان شریکوں کی عبادت سے میرے رب نے روک دیا ہے۔ اس وجہ سے میرے لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ میں تمہاری بدعتوں کی پیروی کروں۔ یہ بات کہ خدا نے مجھے اس بات سے روک دیا ہے۔ ایک واضح دلیل اور قطعی حجت پر مبنی ہے۔ اس باب میں میرے رب کی شہادت اس وحی کی صورت میں موجود ہے جو مجھ پر آتی ہے لیکن تم اس وحی کو جھٹلاتے ہو اور اس وقت تک اس کی تصدیق کے لیے تیار نہیں ہو جب تک تم کو خدا کا عذاب نہ دکھا دیا جائے۔ یہ چیز میرے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کا اختیار خدا ہی کو ہے۔ اگر یہ چیز میرے اختیار میں ہوتا۔ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میرا رب اس جھگڑے کا فیصلہ فرمائے گا لیکن کب اور کس طرح ؟ اس کا جواب صرف اسی کے پاس ہے جو اپنی کائنات کے تمام رازوں اور بھیدوں کو جاننے والا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ بات کہ مرنے کے بعد ایک روز اٹھنا اور اٹھنے کے بعد ایک ہی خدا کے آگے حاضر ہونا ہے پھر سب کو اپنے مولائے حقیقی کے آگے جواب دہی کرنی ہے، ای ایسی حقیقت ہے جس کا ریہرسل اس دنیا کے سٹیج پر ہر روز ہو رہا ہے لیکن جو لوگ آنکھیں بند کیے ہوئے ہوں ان کا کیا علاج ! اس کے بعد انسان کی اس نفسیاتی بیماری کی طرف توجہ دلائی کہ یہ جب کسی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے تب تو خدا خدا پکارتا ہے اور اس کے سوا سب کو بھول جاتا ہے لیکن اس آزمائش سے خدا جب اس کو نجات دے دیتا ہے تو چھوٹتے ہی اپنی پھچلی سرمستیوں اور حماقتوں میں پھر کھو جاتا ہے، گویا کوئی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں اور یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب وہ خدا کے قابو سے بالکل باہر ہے، مطلب یہ ہے کہ اسی بیماری میں یہ لوگ مبتلا ہیں جو آج عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ ہر بات کے لیے خدا کے ہاں ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو دیکھ لو گے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top