Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 44
وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِۙ
وَلَوْ تَقَوَّلَ : اور اگر بات بنا لیتا۔ بات گھڑ لیتا عَلَيْنَا : ہم پر بَعْضَ : بعض الْاَقَاوِيْلِ : باتیں
اور اگر یہ ہم پر کوئی بات گھڑ کر لگاتا
کفار کے الزام کا جواب: یہ جواب ہے کفار کے اس الزام کا جو وہ آنحضرت ﷺ پر لگاتے تھے کہ یہ سب کچھ گھڑتے تو ہیں اپنے جی سے لیکن ہم پر دھونس یہ جماتے ہیں کہ یہ کلام ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنا رسول بناتا ہے وہ اس کا سفیر اور وحی کی عظیم امانت کا حامل ہوتا ہے اس وجہ سے اس کی نگرانی بھی نہایت کڑی ہوتی ہے۔ مجال نہیں ہے کہ وہ اپنے جی سے اس میں کوئی رد و بدل کر سکے۔ اگر وہ سرمو بھی کوئی بات ہم سے غلط منسوب کرے تو ہم اس کو اپنے قوی بازو سے پکڑیں اور اس کی شہ رگ ہی کاٹ دیں پھر کوئی بھی اس کو ہم سے بچانے والا نہیں بن سکتا۔ یہ بات ایسے اسلوب میں فرمائی گئی ہے جس سے اس کڑی نگرانی کی بھی وضاحت ہو رہی ہے جو رسول کی، اس کی منصبی ذمہ داریوں کے سبب سے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور کفار کے اس مطالبہ کا جواب بھی اس میں آ گیا ہے جو وہ نبی ﷺ سے کرتے تھے کہ اس قرآن کو اگر ہم سے منوانا ہے تو یا تو اس کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا کم از کم یہ کہ اس میں ایسی ترمیم کرو کہ یہ ہمارے لیے لائق قبول ہو سکے۔ سورۂ یونس میں ان کے اس مطالبہ اور اس کے جواب کا یوں حوالہ آیا ہے: وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا ائۡتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ہٰذَآ أَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ أَنْ أُبَدِّلَہُ مِنۡ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ اِنْ أَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوحٰٓی اِلَیَّ اِنِّیْ أَخَافُ اِنْ عَصَیْْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (یونس ۱۰: ۱۵) ’’اور جب ان کو ہماری نہایت واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یا تو اس کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں تبدیلی کرو۔ ان کو جواب دے دو کہ مجھے کیا حق ہے کہ میں اپنی چاہت سے اس میں کوئی تبدیلی کروں۔ میں تو بس اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘
Top