Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 151
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ١ۖ٘ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اغْفِرْ لِيْ : مجھے بخشدے وَلِاَخِيْ : اور میرا بھائی وَاَدْخِلْنَا : اور ہمیں داخل کر فِيْ رَحْمَتِكَ : اپنی رحمت میں وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ : سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
موسیٰ نے دعا کی، اے میرے پروردگار، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر، ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو ارحم الراحمین ہے
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ڮ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت ہارون کے اس عذر کو قبول کرلیا۔ حضرت ہارون پر یہ شبہ تو کسی طرح ہوسکتا ہی نہیں تھا کہ خدانخواستہ وہ اس فتنہ کے بانیوں میں ہوں گے البتہ یہ شبہ حضرت موسیٰ کو ہوا ہوگا کہ انہوں نے اس کے روکنے کے لیے اپنی ذمہ داری کما حقہ ادا نہیں کی۔ حضرت ہارون کے مذکورہ بالا جواب سے یہ شبہ دور ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اگر حالات ایسے ہوگئے تھے کہ وہ اپنا سر دے کر بھی اس فتنہ کو روک نہیں سکتے تھے تو ان کے لیے یہی بہتر تھا کہ وہ اس سے اپنے آپ کو الگ رکھیں اور حضرت موسیٰ کا انتظار کریں۔ صورت معاملہ واضح ہوجانے کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنے اور اپنے بھائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی اور پہلے اپنے لیے مغفرت مانگی اس لیے کہ دعائے مغفرت میں صحیح ادب یہی ہے اور اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ حمیت حق کے جوش میں بھائی کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے۔
Top