Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
قَالَ : وہ بولا فَبِمَآ : تو جیسے اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاَقْعُدَنَّ : میں ضرور بیٹھوں گا لَهُمْ : ان کے لیے صِرَاطَكَ : تیرا راستہ الْمُسْتَقِيْمَ : سیدھا
بولا چونکہ تو نے مجھے گمراہی میں ڈالا ہے اس وجہ سے میں تیری سیدھی راہ پر ان کے لیے گھات میں بیٹھوں گا
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ ابلیس کا چیلنج اللہ تعالیٰ کو :۔ اپنی درخواست منظور کر الینے کے بعد یہ چیلنج بلیس نے اللہ تعالیٰ کو دیا۔ اس نے اپنا اصل حریف اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھا اس وجہ سے چیلنج بھی اللہ تعالیٰ ہی کو دیا۔ گویا اس کارزار میں شیطان کے نقطہ نظر سے، اصل مقابلہ شیطان اور انسان کے درمیان نہیں بلکہ خدا اور شیطان کے درمیان ہے۔ فبما اغویتنی، (بوجہ اس کے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا) کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے سجدہ نہ کرنے کے معاملہ میں اپنے رویہ کو بالکل صحیح سمجھا۔ اس کے نزدیک اس کی گمراہی خود کردہ نہیں بلکہ (نعوذ باللہ) خدا کردہ ہے۔ گویا خدا نے اس ڈالا ہی تھا ایسے امتحان میں جس سے وہ عہدہ بر آ نہیں ہوسکتا تھا اس وجہ سے وہ گمراہ ہوا تو اس گمراہی پر نعوذ باللہ خدا ہی نے اس کو مجبور کیا۔ صراطِ مستقیم سے مراد توحید کی راہ ہے۔ انسان کی فطرت اور خدا ٰں براہ راست رطب ہے۔ فطرت کی راہ میں غیر فطری کج پیچ نہ پیدا کردیے جائیں تو انسان توحید کے سوا کوئی اور راہ نہیں اختیار کرسکتا۔ اس وجہ سے توحید کو قرآن میں بھی اور دوسرے آسمانی صحیفوں میں بھی صراط مستقیم سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جب تک انسان اس راہ پر قائم رہتا ہے اس وقت تک وہ سست رو اور آبلہ پر ہو کر بھی رو منزل رہتا ہے اس وجہ دیر سویر منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے۔ برعکس اس کے، اگر وہ شرک کے کسی موڑ کی طرف مڑ جائے تو اصل منزل سے روگرداں ہوجاتا ہے اور پھر جتنے قدم بھی وہ آگے بڑھتا ہے اس کا سفر کسی ضلال بعید ہی کی راہ میں ہوتا ہے۔ یہ رمز ہے جس کے سبب سے شیطان کو انسان پر پوری فتح حاصل کرنے کا اس وقت تک موقع نہیں ملتا جب تک وہ اس کو توحید کی شاہراہ سے ہٹا کر شرک کی کسی پگڈنڈی پر نہ ڈال دے۔ چناچہ اس نے اپنے چیلنج میں آشکارا الفاظ میں بتا دیا کہ وہ انسان کی گھات میں توحید کی راہ پر بیٹھے گا اور اس راہ سے اس کو بےراہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
Top