Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 17
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَاٰتِيَنَّهُمْ : میں ضرور ان تک آؤں گا مِّنْ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَ : اور مِنْ خَلْفِهِمْ : پیچھے سے ان کے وَ : اور عَنْ : سے اَيْمَانِهِمْ : ان کے دائیں وَ : اور عَنْ : سے شَمَآئِلِهِمْ : ان کے بائیں وَلَا تَجِدُ : اور تو نہ پائے گا اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر شٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
پھر میں ان کے آگے، ان کے پیچھے، ان کے داہنے اور ان کے بائیں سے ان پر تاخت کروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا
ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ : شیطان کے ہمہ جہت حملے کا بیان :۔ یہ بیان ہے شیطان کے حملہ کی قوت، وسعت اور ہمہ گیری کا خود اس کی زبان سے۔ وہ ہر جہت، ہر پہلو سے انسان پر حملہ کرے گا، وہ اس کے مشاہدات، احساسات، جذبات، کو اہشات ہر منفذ سے اس کے اندر گھسنے کی کوشش کرے گا۔ وہ اس کے فکر، فلسفہ، علم ادراک ہر چیز کو مسموم کرے گا۔ وہ اس کی تحقیق، تنقید، تصنیف، تالید، ادب، آرٹ، لٹریچر ہر چیز میں اپنا زہر گھولے گا، وہ اس کے تہذیب، تمدن، معیشت، معاشرت، فیشن، کلچر سیاست اور مذہب ہر چیز کے اندر فساد برپا کرے گا۔ شیطان کا یہی چلینج سورة بنی اسرائیل میں بدیں الفاط نقل ہوا ہے قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لأحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلا قَلِيلا (62) قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا (63) وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الأمْوَالِ وَالأولادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلا غُرُورًا (64)إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلا (65) (62۔ 65) (ذرا دیکھ تو، یہی ہے وہ جس کو تو نے مجھ پر فضیلت بخشی ہے ! اگر تو نے قیامت تک کے لیے مجھے مہلت بکشی تو قدر قلیل سوا میں اس کی ساری ذریت کو چٹ کر جاؤ گا۔ خدا نے فرمایا، چل دور ہو، جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے تو تمہارا بھر پور بدلہ جہنم ہے۔ تو ان میں جن کو اپنے شور و شغب سے اکھاڑ سکے اکھاڑ لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لے اور ان کے مال و اولاد میں ساجھی بن جا اور ان کو اپنے پر فریب وعدوں کے سبز باغ دکھا، شیطان کے سارے وعدے ان سے محض دھوکے کی ٹٹی ہیں۔۔۔ بیشک تجھ کو میرے خاص بندوں پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا اور تیرا رب اعتماد کے لیے کافی ہے) اس آیت سے شیطان کے پروپیگنڈے کے زور اور اس کی وسعت کا بھی اظہار ہو رہا ہے اور یہ بات بھی نکلتی ہے کہ وہ اپنے منصوبے کو بروئے کار لانے کے لیے سیاسی ہتھکنڈے بھی استعمال کرے گا۔ البتہ ایک پہلو اس میں تسلی کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو انسان پر یہ اختیار نہیں بخشا کہ وہ اس کے ارادے اور اختیار کو سلب کرسکے۔ انسان کا ارادہ و اختیار بہرحال باقی رہے گا۔ اس وجہ سے اللہ کے جو بندے صراط مستقیم پر قائم رہنے کا عزم کرلیں گے وہ شیطان کی تمام غوغا آرائیوں کے علی الرغم اس پر قائم رہیں گے، اگرچہ اس کے لیے انہیں جان کی بازی کھیلنی پڑے۔ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ کا ٹھیک ٹھیک مطلب یہ ہے کہ تو ان کی اکثریت کو اپنا موحد نہیں پائے گا۔ اس لیے کہ توحید کی اصل حقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنی ہر نعمت کو اللہ ہی کا عطیہ، اسی کا فضل جانے اور اسی کا شکر گزار رہے۔ اگر وہ اس کو غیر اللہ کی طرف منسوب کردے تو یہ شرک ہے، اس مسئلہ پر پیچھے بھی بحثیں گزر چکی ہیں اور آگے بھی اسی سورة میں اس کے بعض نہایت اہم پہلو سامنے آئیں گے۔ اوپر آیت 10 پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
Top