Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے وہ جو ایمان لائے، جب تمہارا کسی جماعت سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو زیادہ یاد کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرو
جنگ کے باب میں مومنین کو ہدایات : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ یہ آگے کے مراحل کے لیے ہدایت دی جارہی ہے کہ جب تمہارا کفار کے کسی گروہ سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ ثابت قدمی اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی نصرت ہمیشہ اسباب کے پردے سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ دنیا بندوں کے لیے امتحان گاہ ہے۔ جب بندے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیتے ہیں تو اس کے پردے میں اللہ کی نصرت ظاہر ہوتی ہے۔ بندوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ بنی سرائیل کی طرح خدا کا امتحان کریں کہ خود تو گھروں میں بیٹھ رہیں اور خدا سے یہ امید کریں کہ وہ فتح کر کے کنجیاں ان کے حوالے کردے۔ تب وہ شہر میں داخل ہوں گے۔ ثابت قدمی کا ذریعہ اللہ کی یاد ہے۔ اللہ کا ذکر ثابت قدمی کا ذریعہ ہے۔ اوپر ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اصلی قوت دل کی قوت ہے اور دل کو قوت ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایمان سرسبز و شداب، ذکر الٰہی کی جھڑی سے رہتا ہے۔ یہ ذکر الٰہی یوں تو سانس کی طرح ہر وقت ایمانی زندگی کے لیے ضروری ہے اس لیے کہ انسان ہر وقت شیطان سے نبرد آزما ہے لیکن حالات زیادہ صبر آزما ہوں تو یہ ذکر بھی زیادہ مقدار میں مطلوب ہوگا۔ اسی وجہ سے یہاں کثیر کی قید لگی ہوئی ہے۔ حصول فلاح کا ذریعہ : لفظ ‘ فلاح ’ ایک جامع لفظ ہے۔ یہ دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی پر مشتمل ہے۔ مجرد غلبہ تو ہوسکتا ہے کہ بغیر ذکر الٰہی کے بھی حاصل ہوجائے لیکن وہ فلاح کا ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ فلاح اسی غلبہ سے حاصل ہوگی جس کا دروازہ ذکر الٰہی کی مدد سے کھلے اور جس میں غلبہ حاصل کرنے والوں کو خدا کی معیت حاصل ہو۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ کسی فوج کی ثابت قدمی میں اصلی عامل کی حیثیت ہمیشہ اس کے حوصلہ ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس چیز کی اہمیت جس طرح پہلے تسلیم کی گئی ہے اسی طرح آج بھی تسلیم کی جاتی ہے۔ اسلام نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے حوصلہ برقرار رکھنے کا ذریعہ ذکر الٰہی کو بتایا ہے اور حق یہ ہے کہ مومن کے اندر عزم اور حوصلہ کا سرچشمہ یہی چیز ہے۔
Top