Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 7
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب يَعِدُكُمُ : تمہیں وعدہ دیتا تھا اللّٰهُ : اللہ اِحْدَى : ایک کا الطَّآئِفَتَيْنِ : دو گروہ اَنَّهَا : کہ وہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَتَوَدُّوْنَ : اور چاہتے تھے اَنَّ : کہ غَيْرَ : بغیر ذَاتِ الشَّوْكَةِ : کانٹے والا تَكُوْنُ : ہو لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور يُرِيْدُ : چاہتا تھا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّحِقَّ : ثابت کردے الْحَقَّ : حق بِكَلِمٰتِهٖ : اپنے کلمات سے وَيَقْطَعَ : اور کاٹ دے دَابِرَ : جڑ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یاد کرو جب کہ اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کر رہا تھا کہ وہ تمہارا لقمہ بنے گا اور تم یہ چاہ رہے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارا لقمہ بنے اور اللہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے کلمات سے حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹے تاکہ مجرموں کے علی الرغم وہ حق کو پابرجا اور باطل کو نابود کردے
جماعت کے حوصلہ کا اندازہ کرنے کے لیے ایک حکیمانہ طریقہ : وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ۔ کے اسلوب بیان میں جو ابہام ہے وہ اس حیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نکلتے وقت انصار و مہاجرین سے جب اس مہم کے باب میں استمزاج فرمایا تو بات کھل کر یوں نہیں فرمائی کہ تجارتی قافلہ کی حفاظت کا بہانہ بنا کر قریش نے ہم پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیج دی ہے بلکہ مبہم انداز میں یوں فرمایا کہ کفار کی دو جماعتیں آرہی ہیں جن میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ ہمارے قابو میں کردے گا۔ یہ مبہم انداز بیان حضور نے کیوں ارشاد فرمایا ؟ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اہم مہم پر روانہ ہونے سے پہلے حجور نے چاہا کہ ہر گروہ کا جائزہ لے لیا جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور اگر مسئلہ کو بالکل دو ٹوک انداز میں لوگوں کے سامنے رکھ دیتے تو مخلص و منافق سب کو آمنا و صدقنا کہتے ہی بن پڑتی۔ پھر نہ تو کسی کو اس سے اختلاف کی جرات ہوتی اور نہ کسی کی کمزور ظاہر ہوسکتی۔ یاد ہوگا، یہی طریقہ آپ نے جنگ احد کے موقع پر بھی اختیار فرمایا۔ اس وقت آپ نے لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ جنگ شہر سے باہر نکل کر کی جائے یا شہر میں محصور ہو کر اور خود اپنی رائے ظاہر نہیں فرمائی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جاں نثاروں نے شہر سے باہر نکل کر جنگ کرنے کی رائے دی اور کمزور قسم کے لوگوں نے شہر میں محصور ہوکر۔ اس طرح آپ کو جماعت کے قوی ضعیف اور مخلص و منافق سب کا جائزہ لینے کا موقع مل گیا۔ اسی حکمت و مصلحت سے حضور نے اس موقع پر بھی بات مبہم انداز میں فرمائی کہ لوگوں کے جواب سے اندازہ ہوجائے کہ کون کس طرز پر سوچ رہا ہے چناچہ پہلے آپ نے مہاجرین کا عندیہ معلوم کرنا چاہا۔ وہ صاف سمجھ گئے کہ حضور کا منشا کیا ہے۔ چناچہ ان میں سے مقداد بن عمر نے اٹھ کر ایک ایسی تقریر کی جس کی گونج اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ انہوں نے فرمایا۔“ اے اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کو جس بات کا حکم دیا ہے آپ اس کے لیے اقدام کیجیے۔ آپ جہاں کے لیے نکلیں گے ہم آپ کے ہم رکاب ہیں۔ ہم آپ سے وہ بات کہنے والے نہیں ہیں جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب دونوں جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھتے ہیں بلکہ ہمارا قول یہ ہے کہ آپ اور آپ کا رب دونوں جنگ کے لیے نکلیں، جب تک کہ ایک آنکھ بھی ہم میں گردش کرتی ہے ہم سرکٹانے کے لیے حاضر ہیں ” کیا یہ تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان الفاظ میں جن لوگوں کی ترجمانی کی گئی ہے ان کے کسی فرد میں بھی کسی تجارتی قافلے پر حملے کا کوئی موہوم وسوسہ بھی ہوسکتا ہے۔ نبی ﷺ نے مہاجرین کی طرف سے اطمینان کرلینے کے بعد اپنے وہی الفاظ جو اوپر مذکور ہوئے پھر دہرائے۔ انصار سمجھ گئے کہ اب حضور ہمارا عندیہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ چناچہ انصار کے لیڈر سعد بن معاذ اٹھے اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور کا روئے سخن ہماری طرف ہے ؟ پھر انہوں نے وہ تقریر کی جس کا ایک ایک لفظ میدان جہاد کا رجز ہے اور جس کی حرارت ایمانی 14 سو سال گزرنے پر بھی ٹھنڈی نہیں پڑی ہے۔ انہوں نے فرمایا“ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ جو دین آپ لے کر آئے ہیں وہی حق ہے۔ ہم نے آپ سے سمع وطاعت کا عہد و میثاق کیا ہے۔ پس اے اللہ کے رسول، آپ نے جو ارادہ فرمایا ہے وہ پورا کیجیے۔ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہمیں اس سمندر کے کنارے لے جا کر اس میں کود پڑیں گے تو آپ کے ساتھ ہم بھی اس میں کود پڑیں گے اور ایک شخص بھی ہم میں سے پیچھے رہنے والا نہیں ہوگا۔ ہم اس بات سے نہیں گھبراتے کہ کل آپ ہمیں ہمارے دشمنوں کے مقابلہ کے لیے لے جا کھڑا کریں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے۔ مقابلہ کے وقت ہم راست باز ثابت ہوں گے اور کیا عجب کہ اللہ ہمارے ہاتھوں وہ کچھ دکھائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں تو اللہ کا نام لے کر آپ ہمیں ہم رکابی کا شرف بخشیے ” غور کیجیے کہ کیا یہ تقریریں ان لوگوں کی ہوسکتی ہیں جو ایک غیر مسلح قافلہ پر جس کی جمعیت شاید کل چالیس آدمیوں پر منحصر تھی۔ حملہ کی سکیمیں سوچ رہے ہوں اور پھر اس امر پر غور کیجیے کہ کیا لفظ لفظ سے یہ بات واضح نہیں ہو رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے سوال کے اس ابہام کے باوجود، جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا، انصار و مہاجرین دونوں گروہوں پر یہ بات سورج کی طرح روشن تھی کہ آپ کا منشا کیا ہے اور آپ کا رخ کدھر کو ہے، البتہ ایک گروہ، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہے، ضعیف الایمانوں کا ایسا تھا جو حقیقت کی وضاحت کے باوجود محض اپنی بزدلی کے سبب سے یہ چاہتا تھا کہ حملہ قافلہ پر کیا جائے جو غیر مسلح ہے تاکہ خطرہ کوئی نہ پیش آئے اور لقمہ تر ہاتھ آئے۔ انہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ (تم چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارا لقمہ نے) شوک، اور شوکۃ عربی میں کانٹے کو کہتے ہیں یہیں سے لفظ شوکۃ ہتھیار اور پھر قوت اور دبدب کے معنی میں استعمال ہوا۔ چونکہ تجارتی قافلہ غیر مسلح تھا اس وجہ سے اس کے لیے غیر ذات الشوکۃ کا لفظ استعمال ہوا۔ خدائی احکام کا منشا سمجھنے کے لیے ایک عقلی کسوٹی : وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ۔ اب یہ اللہ کے ارادے اور منشا کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے ایک عقلی اور فطری معیار بتایا گیا ہے کہ اللہ کا ہر حکم و ارادہ احقاق حق اور ابطال باطل کے مقصد کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس کی باتوں کا منشا، اگرچہ وہ مجمل ہوں، معین کرنے میں اس اصول کو نظر انداز کرنا جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں نے قافلہ پر حملہ کرنے کا ارمان کیا، انہوں نے اس بات کا خیال نہ کیا کہ خدا ایک ایسی بات کیسے چاہ سکتا ہے جس سے نہ حق کا بول بالا ہو نہ کفر اور اہل کفر کی جڑ کٹے۔ کلمات کا لفظ جیسا کہ ہم سورة بقرہ کی تفسیر میں تصریح کرچکے ہیں، ایک قسم کے ابہام کا حامل ہے۔ چونکہ اس موقع پر بات، جیسا کہ ہم اوپر وضاحت کرچکے ہیں، لوگوں کے سامنے مبہم طور پر رکھی گئی تھی اس وجہ سے قرآن نے اس کو کلمات کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جن باتوں کے اندر کوئی اجمال و ابہام ہوتا ہے۔ درحقیقت وہی باتیں ہوتی ہیں جن کے منشا کے تعین کا کام دشوار ہوتا ہے ایسے مواقع میں اہل ایمان کی روش یہ ہونی چاہیے کہ بات کا وہ پہلو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی شان سے موافقت رکھنے والا ہو نہ کہ ان کے منافی۔ يَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ کے الفاظ سے قرآن نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ سارے کفر کی جڑ تو قریش کی جمعیت تھی، کاٹنے کی چیز تھی تو وہ تھی اور اللہ چاہ سکتا تھا تو اس کو کاٹنا چاہ سکتا تھا لیکن ایک گروہ نے تجارتی قافلہ ہی پر وار کر کے تیس مار خاں بننے کی کوشش کی۔
Top