Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ ”یہ بستی 74جو تمہارے سامنے ہےاس میں داخل ہو جاوٴاس کی پیداوار جس طرح چاہومزے سے کھاوٴمگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوےٴداخل ہونااور کہتے جانا حِطَّةٌ ، حِطَّةٌ،75 ہم تمہاری خطاوٴں سے درگزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔“
سورة الْبَقَرَة 74 یہ ابھی تک تحقیق نہیں ہوسکا ہے کہ اس بستی سے مراد کونسی بستی ہے۔ جس سلسلہء واقعات میں یہ ذکر ہو رہا ہے وہ اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ بنی اسرائیل ابھی جزیرہ نمائے سینا ہی میں تھے۔ لہٰذا اغلب یہ ہے کہ یہ اسی جزیرہ نما کا کوئی شہر ہوگا۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد شِطّیم ہو، جو یَرِْیْحُو کے بالمقابل دریائے اُرْدُن کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس شہر کو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی کے اخیر زمانے میں فتح کیا اور وہاں بڑی بدکاریاں کیں جن کے نتیجے میں خدا نے ان پر وبا بھیجی اور 24 ہزار آدمی ہلاک کردیے۔ (گنتی۔ باب 25، آیت 8-1) سورة الْبَقَرَة 75 یعنی حکم یہ تھا کہ جابر و ظالم فاتحوں کی طرح اکڑتے ہوئے نہ گھسنا، بلکہ خدا ترسوں کی طرح منکسرانہ شان سے داخل ہونا، جیسے حضرت محمد ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے۔ اور حِطَّۃٌ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے جانا، دوسرے یہ کہ لوٹ مار اور قتل عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگذر اور عام معافی کا اعلان کرتے جانا۔
Top