Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 189
فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
فَكَذَّبُوْهُ : تو انہوں نے جھٹلایا اسے فَاَخَذَهُمْ : پس پکڑا انہیں عَذَابُ : عذاب يَوْمِ الظُّلَّةِ : سائبان والا دن اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا (سخت) دن
انہوں نے اُسے جھُٹلا دیا، آخر کارچھتری والے دن کا عذاب ان پر آگیا 117 ، اور وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھ
سورة الشُّعَرَآء 117 اس عذاب کی کوئی تفصیل قرآن مجید میں یا کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں ہے۔ ظاہر الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے چونکہ آسمانی عذاب مانگا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیج دیا اور وہ چھتری کی طرح ان پر اس وقت تک چھایا رہا جب تک باران عذاب نے ان کو بالکل تباہ نہ کردیا۔ قرآن سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اصحاب مدین کے عذاب کی کیفیت اصحاب الایکہ کے عذاب سے مختلف تھی۔ یہ جیسا کہ یہاں بتایا گیا ہے، چھتری والے عذاب سے ہلاک ہوئے، اور ان پر عذاب ایک دھماکے اور زلزلے کی شکل میں آیا (فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْ فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ، اور وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ)۔ اس لیے ان دونوں کو ملا کر ایک داستاں بنانے کی کوشش درست نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے عذاب یوم الظُّلہ کی کچھ تشریحات بیان کی ہیں، مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ من حدثک من العلماء ما عذاب یوم الظلۃ فکذبہ، " علماء میں سے جو کوئی تم سے بیان کرے کہ یوم الظُّلہ کا عذاب کیا تھا اس کو درست نہ سمجھو "۔
Top