Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 24
وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَهُمْ لَا یَهْتَدُوْنَۙ
وَجَدْتُّهَا : میں پایا ہے اسے وَقَوْمَهَا : اور اس کی قوم يَسْجُدُوْنَ : وہ سجدہ کرتے ہیں لِلشَّمْسِ : سورج کو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَزَيَّنَ : اور آراستہ کر دکھائے ہیں لَهُمُ : انہیں الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل (جمع) فَصَدَّهُمْ : پس روک دیا انہیں عَنِ السَّبِيْلِ : راستہ سے فَهُمْ : سو وہ لَا يَهْتَدُوْنَ : راہ نہیں پاتے
میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سُورج کے آگے سجدہ کرتی ہے30“۔۔۔۔ 31شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے32 اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے
سورة النمل 30 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس زمانے میں آفتاب پرستی کے مذہب کی پیرو تھی، عرب کی قدیم روایات سے بھی اس کا یہی مذہب معلوم ہوتا ہے، چناچہ ابن اسحاق علمائے انساب کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ سبا کی قوم دراصل ایک مورث اعلی کی طرف منسوب ہے جس کا نام عبد شمس (بندہ آفتاب یا سورج کا پرستار) اور لقب سبا تھا۔ بنی اسرائیل کی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں، ان میں بیان کیا گیا ہے کہ ہدہد جب حضرت سلیمان کا خط لیکر پہنچا تو ملکہ سبا سورج دیوتا کی پرستش کے لیے جارہی تھی۔ ہدہد نے راستے ہی میں وہ خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا۔ سورة النمل 31 انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر پیرا گراف تک کی عبادت ہدہد کے کلام کا جز نہیں ہے بلکہ سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے پر اس کی بات ختم ہوگئی اور اس کے بعد اب یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بطور اضافہ ہے۔ اس قیاس کو جو چیز تقویت دیتی ہے وہ یہ فقرہ ہے وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ ان الفاظ سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ متکلم ہدہد اور مخاطب حضرت سلیمان کے اہل دربار نہیں ہیں بلکہ متکلم اللہ تعالیٰ اور مخاطب مشرکین مکہ ہیں جن کو نصیحت کرنے ہی کے لیے یہ قصہ سنایا جارہا ہے، مفسرین میں سے علامہ آلوسی، صاحب روح المعانی بھی اسی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔ سورة النمل 32 یعنی دنیا کی دولت کمانے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنانے کے جس کام میں وہ منہمک تھے، شیطان نے ان کو بجھا دیا کہ بس یہی عقل و فکر کا ایک مصروف اور قوائے ذہنی و جسمانی کا ایک استعمال ہے، اس سے زیادہ کسی چیز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ اس فکر میں پڑو کہ اس ظاہر حیات دنیا کے پیچھے حقیقت واقعیہ کیا ہے اور تمہارے مذہب، اخلاق، تہذیب اور نظام حیات کی بنیادیں اس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں یا سراسر اس کے خلاف جارہی ہیں، شیطان نے ان کو مطمئن کردیا کہ جب تم دنیا میں دولت اور طاقت اور شان و شوکت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جارہے ہو تو پھر تمہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہمارے یہ عقائد اور فلسفے اور نظریے ٹھیک ہیں یا نہیں۔ ان کے ٹھیک ہونے کی تو یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تم مزے سے دولت کما رہے ہو اور عیش اڑا رہے ہو۔
Top