Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 25
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ
اَلَّا : کہ نہیں يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ : وہ سجدہ کرتے اللہ کو الَّذِيْ : وہ جو يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْخَبْءَ : چھپی ہوئی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تُخْفُوْنَ : جو تم چھپاتے ہو وَمَا : اور جو تُعْلِنُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو
کہ اُس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا  ہے33 اور سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھُپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو۔ 34
سورة النمل 33 یعنی جو ہر آن ان چیزوں کو ظہور میں لا رہا ہے جو پیدائش سے پہلے نہ معلوم کہاں کہاں پوشیدہ تھیں زمین کے پیٹ سے ہر آن بیشمار نباتات نکال رہا ہے اور طرح طرح کے معدنیات خارج کر رہا ہے، عالم بالا کی فضاؤں سے وہ وہ چیزیں سامنے لارہا ہے جن کے ظہور میں آنے سے پہلے انسان کا وہم و گمان بھی ان تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ سورة النمل 34 یعنی اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اس کے لیے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں، اس پر سب کچھ عیاں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بطور نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انہیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کرہ جو پیچارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے، بکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم وخبیر ہے اور جس کی قدرت ہر لحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لارہی ہے۔
Top