Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 34
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً١ۚ وَ كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ
قَالَتْ : وہ بولی اِنَّ : بیشک الْمُلُوْكَ : بادشاہ (جمع) اِذَا دَخَلُوْا : جب داخل ہوتے ہیں قَرْيَةً : کسی بستی اَفْسَدُوْهَا : اسے تباہ کردیتے ہیں وَجَعَلُوْٓا : اور کردیا کرتے ہیں اَعِزَّةَ : معززین اَهْلِهَآ : وہاں کے اَذِلَّةً : ذلیل وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
ملکہ نے کہا کہ”بادشاہ جب کسی ملک میں گھُس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں39۔ یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں40
سورة النمل 39 اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات و نتائج پر مکمل تبصرہ کردیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں کی دوسری قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی، اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدا نے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل و ذرائع عطا کیے ہیں ان سے وہ خود متمتع ہوں اور اس قوم کو اتنا بےبس کردیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے، اس غرض کے لیے وہ اس کی خوشحالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کردیتے ہیں، اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے انہیں کچل کر رکھ دیتے ہیں، اس کے افراد میں غلامی، خوشامد، ایک دوسرے کی کاٹ، ایک دوسرے کی جاسوسی، فاتح کی نقالی، اپنی تہذیب کی تحقیر، فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں، اور انہیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس سے مقدس چیز کو بھی بیچ دینے میں تامل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ سورة النمل 40 اس فقرے میں دو برابر کے احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ملکہ سبا ہی کا قول ہو اور اس نے اپنے پچھلے قول پر بطور تاکید اس کا اضافہ کیا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہو جو ملکہ کے قول کی تائید کے لیے جملہ معترضہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہو۔
Top