Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 104
وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۠
وَلَا تَهِنُوْا : اور ہمت نہ ہارو فِي : میں ابْتِغَآءِ : پیچھا کرنے الْقَوْمِ : قوم (کفار) اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ : تمہیں دکھ پہنچتا ہے فَاِنَّھُمْ : تو بیشک انہیں يَاْ لَمُوْنَ : دکھ پہنچتا ہے كَمَا تَاْ لَمُوْنَ : جیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے وَتَرْجُوْنَ : اور تم امید رکھتے ہو مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ مَا لَا : جو نہیں يَرْجُوْنَ : وہ امید رکھتے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اِس گروہ 138کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاوٴ۔ اگر تم تکلیف اُٹھارہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اُٹھارہے ہیں۔ اور تم اللہ سے اُس چیز کے اُمّیدوار ہو جس کے وہ اُمّیدوار نہیں ہیں۔139 اللہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ حکیم و دانا ہے
سورة النِّسَآء 138 یعنی گروہ کفار جو اس وقت اسلام کی دعوت اور نظام اسلامی کے قیام کی راہ میں مانع و مزاحم بن کر کھڑا ہوا تھا۔ سورة النِّسَآء 139 یعنی تعجب کا مقام ہے کہ اگر اہل ایمان حق کی خاطر اتنی تکلیفیں بھی برداشت نہ کریں جتنی کفار باطل کی خاطر برداشت کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے سامنے صرف دنیا اور اس کے ناپائیدار فائدے ہیں اور اس کے برعکس اہل ایمان رب السمٰوات والارض کی خوشنودی و تقرب اور اس کے ابدی انعامات کے امیدوار ہیں۔
Top