Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 97
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے تَبَوَّؤُ : انہوں نے قرار پکڑا الدَّارَ : اس گھر وَالْاِيْمَانَ : اور ایمان مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے يُحِبُّوْنَ : وہ محبت کرتے ہیں مَنْ هَاجَرَ : جس نے ہجرت کی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پاتے فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : اپنے سینوں (دلوں) حَاجَةً : کوئی حاجت مِّمَّآ : اس کی اُوْتُوْا : دیا گیا انہیں وَيُؤْثِرُوْنَ : اور وہ اختیار کرتے ہیں عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَلَوْ كَانَ : اور خواہ ہو بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ : انہیں تنگی وَمَنْ يُّوْقَ : اور جس نے بچایا شُحَّ نَفْسِهٖ : بخل سے اپنی ذات کو فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے)جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلےہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ 17 یہ اُن لوگوں سےمحبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے اُن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دیدیا جائے اُس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دُوسروں کو تر جیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ 18 حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ 19
سورة الْحَشْر 17 مراد ہیں انصار۔ یعنی فَے میں صرف مہاجرین ہی کا حق نہیں ہے، بلکہ پہلے سے جو مسلمان دار الاسلام میں آباد ہیں وہ بھی اس میں سے حصہ پانے کے حق دار ہیں۔ سورة الْحَشْر 18 یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصار کی۔ مہاجر جب مکہ اور دوسرے مقامات سے ہجرت کر کے ان کے شہر میں آئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیش کش کی کہ ہمارے باغ اور نخلستان حاضر ہیں، آپ انہیں ہمارے اور ان مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ تو باغبانی نہیں جانتے، یہ اس علاقے سے آئے ہیں جہاں باغات نہیں ہیں کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنے ان باغوں اور نخلستانوں میں کام تم کرو اور پیداوار میں سے حصہ ان کو دو ؟ انہوں کہا سمعنا واطعنا (بخاری، ابن جریر)۔ اس پر مہاجرین نے عرض کیا ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں۔ یہ کام خود کریں گے اور حصہ ہم کو دیں گے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوٹ لے گئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا (مسند احمد)۔ پھر جب بنی النضیر کا علاقہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اب بندوبست کی ایک شکل یہ ہے کہ تمہاری املاک اور یہودیوں کے چھوڑے ہوئے باغات اور نخلستانوں کو ملا کر ایک کردیا جائے اور پھر اس پورے مجموعے کو تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ اور دوسری شکل یہ ہے کہ تم اپنی جائدادیں اپنے پاس رکھو اور یہ متروکہ اراضی مہاجرین میں بانٹ دی جائیں۔ انصار نے عرض کیا یہ جائدادیں آپ ان میں بانٹ دیں، اور ہماری جائدادوں میں سے بھی جو کچھ آپ چاہیں ان کو دے سکتے ہیں۔ اس پر حضرت ابوبکر پکار اٹھے جزاکم اللہ یا معشر الانصار خیراً (یحیٰ بن آدم۔ بَلَاذری)۔ اس طرح انصار کی رضا مندی سے یہودیوں کے چھوڑے ہوئے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کیے گئے اور انصار میں سے صرف حضرت ابو دجانہ، حضرت سہل بن حنیف اور (بروایت بعض) حضرت حارث بن الصمہ کو حصہ دیا گیا، کیونکہ یہ حضرات بہت غریب تھے (بلاذری۔ ابن ہشام۔ روح المعانی)۔ اسی ایثار کا ثبوت انصار نے اس وقت دیا جب بحرین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ اس علاقے کی مفتوحہ اراضی انصار کو دی جائیں، مگر انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے (یحیٰ بن آدم)۔ انصار کا یہی وہ ایثار ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ سورة الْحَشْر 19 بچ گئے نہیں فرمایا گیا بلکہ بچا لیے گئے ارشاد ہوا ہے، کیونکہ اللہ کی توفیق اور اس کی مدد کے بغیر کوئی شخص خود اپنے زور بازو سے دل کی تونگری نہیں پاسکتا۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو خدا ہی کے فضل سے کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ شُح کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کر کے شح نفس کہا جائے تو یہ تنگ نظری، تنگ دلی، کم حوصلگی، اور دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہوجاتا ہے جو بخل سے وسیع تر چیز ہے، بلکہ خود بخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے۔ اسی صفت کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے۔ دوسروں کو خود دینا تو کجا، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے، یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے پنے لیے سمیٹ لے اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑے۔ اسی بنا پر قرآن میں اس برائی سے بچ جانے کو فلاح کی ضمانت قرار دیا گیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو ان بد ترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اتقوا الشح فان الشح اھلک من قبلکم، حملھم علیٰ ان سفکوا دماء ھم واستحلوا محارمھم (مسلم، مسند احمد، بیہقی، بخاری فی الادب)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں الفاظ یہ ہیں امرھم بالظلم فظلموا وامرھم بالفجور ففجروا، وامرھم بالقطیعۃ فقطعوا (مسند احمد، ابو داؤد، نسائی)۔ یعنی " شُح سے بچو کیونکہ شح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کرلینے پر اکسایا۔ اس نے ان کو ظلم پر آمادہ کیا اور انہوں نے ظلم کیا، فجور کا حکم دیا اور انہوں نے فجور کیا، قطع رحمی کرنے کے لیے کہا اور انہوں نے قطع رحمی کی "۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا " ایمان اور شح نفس کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے " (ابن ابی شیبہ، نسائی، بیہقی فی شعب الایمان، حاکم)۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا " دو خصلتیں ہیں جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں، بخل اور بد خلقی " (ابوداؤد، ترمذی، بخاری فی الادب)۔ اسلام کی اسی تعلیم کا ثمرہ ہے کہ افراد سے قطع نظر، مسلمان بحیثیت قوم دنیا میں آج بھی سب سے بڑھ کر فیاض اور فراخ دل ہیں۔ جو قومیں ساری دنیا میں تنگ دلی اور بخیلی کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتیں، خود انہی میں سے نکلے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں مسلمان اپنے ہم نسل غیر مسلموں کے سایہ بسایہ رہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان دل کی فراخی و تنگی کے اعتبار سے جو صریح فرق پایا جاتا ہے اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ یہ اسلام کی اخلاقی تعلیم کا فیض ہے جس نے مسلمانوں کے دل بڑے کردیے ہیں۔
Top