Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 167
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب تَاَذَّنَ : خبر دی رَبُّكَ : تمہارا رب لَيَبْعَثَنَّ : البتہ ضرور بھیجتا رہے گا عَلَيْهِمْ : ان پر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَنْ : جو يَّسُوْمُهُمْ : تکلیف دے انہیں سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برا عذاب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ : جلد عذاب دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا127 کہ”وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلّط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے،128“ یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ در گزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے
سورة الْاَعْرَاف 127 اصل میں لفظ تاذَّن استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو نوٹس دینے یا خبردار کردینے کا ہے۔ سورة الْاَعْرَاف 128 یہ تنبیہ بنی اسرائیل کو تقریباً آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل کی جا رہی تھی۔ چناچہ یہودیوں کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یسعیاہ اور یرمیاہ اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تمام کتابیں اسی تنبیہ پر مشتمل ہیں پھر یہی تنبیہ مسیح ؑ نے انہیں کی جیسا کہ اناجیل میں ان کی متعدد تقریروں سے ظاہر ہے۔ آخر میں قرآن نے اس کی توثیق کی۔ اب یہ بات قرآن اور اس سے پہلے صحیفوں کی صداقت پر ایک بین شہادت ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں یہودی قوم دنیا میں کہیں نہ کہیں روندی اور پامال نہ کی جاتی رہی ہو۔
Top