Tafheem-ul-Quran - At-Tahrim : 12
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
1اِعلان براٴت ہے اللہ اور اُس کے رسُول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔2
سورة التَّوْبَة نام یہ سورة دو ناموں سے مشہور ہے۔ ایک التوبہ دوسرے البراءَۃ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے۔ اور براءۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے بریٔ الذمہ ہونے کا اعلان ہے۔ بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ اس سورة کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازی نے لکھی ہے کہ نبی ﷺ نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابہ کرام نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی ﷺ سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے۔ زمانہ نزول اور اجزاءِ سوُرہ ”یہ سورة تین تقریروں پر مشتمل ہے پہلی تقریر آغاز سورة سے پانچویں رکوع کے آخر تک چلتی ہے۔ اس کا زمانہ نزول ذی القعدہ سن 9 ھجری یا اس کے لگ بھگ ہے۔ نبی ﷺ اس سال حضرت ابوبکر ؓ کو امیر الحاج مقرر کر کے مکہ روانہ کرچکے تھے کہ یہ تقریر نازل ہوئی اور حضور نے فوراً سیدنا علی ؓ کو ان کے پیچھے بھیجا تاکہ حج کے موقع پر تمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اور اس کے مطابق جو طرز عمل تجویز کیا گیا تھا اس کا اعلان کردیں۔ دوسری تقریر رکوع 6 کی ابتدا سے رکوع 9 کے اختتام تک چلتی ہے اور یہ رجب 9 ھجری یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبی ﷺ غزوہ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جو نفاق یا ضعف ایمان یا سستی و کاہلی کی وجہ سے راہ خدا میں جان و مال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے۔ تیسری تقریر رکوع 10 سے شروع ہو کر سورة کے ساتھ ختم ہوتی ہے اور یہ غزوہ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی۔ اس میں متعدد ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پر اترے اور بعد میں نبی ﷺ نے اشارہ الہٰی سے ان سب کو یکجا کر کے ایک سلسہ تقریر میں منسلک کردیا۔ مگر چونکہ وہ ایک ہی مضمون اور ایک ہی سلسلہ واقعات سے متعلق ہیں اس لیے ربط تقریر میں کہیں خلل نہیں پایا جاتا۔ اس میں منافقین کی حرکات پر تنبیہ، غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر زجر و توبیخ، اور ان صادق الایمان لوگوں پر ملامت کے ساتھ معانی کا اعلان ہے جو اپنے ایمان میں سچے تو تھے مگر جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے سے باز رہے تھے۔ نزول ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخر میں آنی چاہیے تھی، لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی، اس لیے مصحف کی ترتیب میں نبی ﷺ نے اس کو پہلے رکھا اور بقیہ دونوں تقریروں کو مؤخر کردیا۔ تاریخی پس منظر زمانہ نزول کی تعیین کے بعد ہمیں اس سورة کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ جس سلسلہ واقعات سے اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتدا صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے۔ حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوچکا تھا کہ عرب کے تقریبًا ایک تہائی حصہ میں اسلام ایک منظم سوسائٹی کا دین، ایک مکمل تہذیب و تمدّن، اور ایک کامل با اختیار ریاست بن گیا تھا۔ حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہوگیا کہ اپنے اثرات نسبۃ زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں ہر چہار طرف پھیلا سکے۔ اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر منتہی ہوئے۔ ان میں سے ایک کا تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنت روم سے۔ عرب کی تسخیر عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دو سال کے اندر ہی اسلام کا دائرہ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلہ میں بےبس ہو کر رہ گئی۔ آخر کار جب قریش کے زیادہ پر جوش عناصر نے بازی ہر تی دیکھی تو انہیں یاراے ضبط نہ رہا اور انہوں نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑ ڈالا۔ وہ اس بندش سے آزاد ہو کر اسلام سے ایک آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن نبی ﷺ نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کر کے رمضان سن 8 ھجری میں اسے فتح کرلیا۔ اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت مذبوحی حُنَین کے میدان میں کہ جہاں ہوازن، ثقیف، نضر، جشم اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت لا کر جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہوگیا کہ اسے اب دارالاسلام بن کر رہنا ہے۔ اس واقعہ پر پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے۔ اس نتیجہ کے حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنت روم کی سرحد پر اسی زمانہ میں پیش آرہے تھے۔ وہاں جس جرأت کے ساتھ نبی ﷺ 30 ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلہ پر آنے سے پہلو تہی کر کے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ کے دین کی دھاک بٹھا دی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد آنے شروع ہوگئے اور وہ اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے۔ چناچہ اسی کیفیت کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَ اَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا۔ ”جب اللہ کی مدد آگئی، اور فتح نصیب ہوئی اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں“۔ غزوہ تبوک رومی سلطنت کے ساتھ کشمکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہوچکی تھی۔ نبی ﷺ نے حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف حصوں میں بھیجے تھے ان میں سے ایک شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیر اثر تھے۔ ان لوگوں نے ذات الطَّلح (یا ذات اطلاح) کے مقام پر اس وفد کے 15 آدمیوں کو قتل کردیا اور صرف رئیس وفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے۔ اسی زمانہ میں حضور نے بصریٰ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا بیغام بھیجا تھا، مگر اس نے آپ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کردیا۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہ راست قیصر روم کے احکام کا تابع تھا۔ ان وجوہ سے نبی ﷺ نے جمادی الاولیٰ سن 8 ھجری میں تین ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف بھیجی تاکہ آئندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پر امن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بےزور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہ فوج جب مَعَان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلہ پر آرہا ہے، خود قیصر روم حمص کے مقام پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے۔ لیکن ان خوفناک اطلاعات کے باوجود 3 ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور مُؤتَہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جا ٹکرایا۔ اس تہوّر کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین اسلام بالکل پس جاتے، لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور 33 کے اس مقابلہ میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔ یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو، بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی، جو کسری کے زیر اثر تھے، اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ بنی سُلَیم (جن کے سردار عباس بن مرداس سلمی تھے) اور اشجع اور غَطَفان اور ذبیان اور فزارَہ کے لوگ اسی زمانہ میں داخل اسلام ہوئے۔ اور اسی زمانہ میں سلطنت روم کی عربی فوجوں کا ایک کمانڈر فروہ بن عمرو الجذامی مسلمان ہوا جس نے اپنے ایمان کا ایسا زبردست ثبوت دیا کہ گرد و پیش کے سارے علاقے اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ قیصر کو جب فروہ کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو اس نے انہیں گرفتار کرا کے اپنے دربار میں بلوایا اور ان سے کہا کہ دو چیزوں میں سے ایک کو منتخب کرلو۔ یا ترک اسلام جس کا نتیجہ میں تم کو نہ صرف رہا کیا جائے گا بلکہ تمہیں اپنے عہدے پر بھی بحال کردیا جائے گا، یا اسلام جس کے نتیجہ میں تمہیں سزائے موت دی جائے گی۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے اسلام کو چن لیا اور راہ حق میں جان دے دی۔ یہی واقعات تھے جنہوں نے قیصر کو اس ”خطرے“ کی حقیقی اہمیت محسوس کرائی جو عرب سے اٹھ کر اس کی سلطنت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دوسرے ہی سال قیصر نے مسلمانوں کو غزوہ مُؤتہ کی سزا دینے کے لیے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کردیں اور اس کے ماتحت غسّائی اور دوسرے عرب سردار فوجیں اکٹھی کرنے لگے۔ نبی ﷺ اس سے بیخبر نہ تھے۔ آپ ہر وقت ہر اس چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی خبردار رہتے تھے جس کا اسلامی تحریک پر کچھ بھی موافق یا مخالف اثر پڑتا ہو۔ آپ نے ان تیاریوں کے معنی فورا سمجھ لیے اور بغیر کسی تامل کے قیصر کی عظیم الشان طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس موقع پر ذرہ برابر بھی کمزوری دکھائی جاتی تو سارا بنا بنایا کام بگڑ جاتا۔ ایک طرف عرب کی دم توڑتی ہوئی جاہلیت، جس پر حُنَین میں آخری ضرب لگائی جا چکی تھی، پھر جی اٹھتی۔ دوسری طرف مدینہ کے منافقین، جو ابوعامر راہب کے واسطے سے غسان کے عیسائی بادشاہ اور خود قیصر کے ساتھ اندرونی ساز باز رکھتے تھے، اور جنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں پر دین داری کا پردہ ڈالنے کے لیے مدینہ سے متصل ہی مسجد ضرار تعمیر کر رکھی تھی، بغل میں چھرا گھونپ دیتے۔ سامنے سے قیصر، جس کا دبدبہ ایرانیوں کو شکست دینے کے بعد تمام دور و نزدیک کے علاقوں پر چھا گیا تھا، حملہ آور ہوتا۔ اور ان تین زبردست خطروں کی متحدہ یورش میں اسلام کی جیتی ہوئی بازی یکایک مات کھا جاتی۔ اس لیے باوجود اس کے کہ ملک میں قحط سالی تھی، گرمی کا موسم پورے شباب پر تھا، فصلیں پکنے کے قریب تھیں، سواریوں اور سروسامان کا انتظام سخت مشکل تھا، سرمایہ کی بہت کمی تھی اور دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک کا مقابلہ در پیش تھا، خدا کے نبی نے یہ دیکھ کر کہ یہ دعوت حق کے لیے زندگی و موت کے فیصلہ کی گھڑی ہے، اسی حال میں تیاری جنگ کا اعلان عام کردیا۔ پہلے تمام غزوات میں تو حضور کا قاعدہ تھا کہ آخر وقت تک کسی کو نہ بتاتے تھے کہ کدھر جانا ہے اور کس سے مقابلہ دریپیش ہے، بلکہ مدینے سے نکلنے کے بعد بھی منزل مقصود کی طرف سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے پھیر کی راہ سے تشریف لے جاتے تھے۔ لیکن اس موقع پر آپ نے یہ پردہ بھی نہ رکھا اور صاف صاف بتادیا کہ روم سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے۔ اس موقع کی نزاکت کو عرب میں سب ہی محسوس کر رہے تھے۔ جاہلیت قدیمہ کے بچے کھچے عاشقوں کے لیے یہ ایک آخری شعاع امید تھی اور روم و اسلام کی اس ٹکر کے نتیجہ پر وہ بےچینی کے ساتھ نگاہیں لگائے ہوئے تھے۔ کیونکہ وہ خود بھی جانتے تھے کہ اس کے بعد پھر کہیں سے امید کی جھلک نہیں دکھائی دینی ہے۔ منافقین نے بھی اپنی آخری بازی اسی پر لگا دی تھی اور وہ اپنی مسجد ضرار بنا کر اس انتظار میں تھے کہ شام کی جنگ میں اسلام کی قسمت کا پانسہ پلٹے تو ادھر اندرون ملک میں وہ اپنے فتنہ کا علم بلند کریں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس مہم کو ناکام کرنے کے لیے تمام ممکن تدبیریں بھی استعمال کر ڈالیں۔ ادھر مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ جس تحریک کے لیے 22 سال سے وہ سربکف رہے ہیں، اس وقت اس کی قسمت ترازو میں ہے، اس موقع پر جرأت دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ اس تحریک کے لیے ساری دنیا پر چھا جانے کا دروازہ کھل جائے، اور کمزوری دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ عرب میں بھی اس کی بساط الٹ جائے۔ چناچہ اسی احساس کے ساتھ ان فدائیانِ حق نے انتہائی جوش و خروش سے جنگ کی تیاری کی۔ سروسامان کی فراہمی میں ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی عمر بھر کی کمائی کا آدھا حصہ لا کر رکھ دیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی ساری پونجی نذر کردی۔ غریب صحابیوں نے محنت مزدوری کر کر کے جو کچھ کمایا لا کر حاضر کردیا۔ عورتوں نے اپنے زیور اتار اتار کر دے دیے۔ سرفروش والنٹیروں کے لشکر کے لشکر ہر طرف سے امنڈ امنڈ کر آنے شروع ہوئے اور انہوں نے تقاضا کیا کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہماری جانیں قربان ہونے کو حاضر ہیں۔ جن کو سواریاں نہ مل سکیں وہ روتے تھے اور اپنے اخلاص کی بےتابیوں کا اظہار اس طرح کرتے تھے کہ رسول پاک کا دل بھر آتا تھا۔ یہ موقع عملًا ایمان اور نفاق کے امتیاز کی کسوٹی بن گیا تھا، حتیٰ کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ آدمی کے تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہوجائے۔ چناچہ تبوک کی طرف جاتے ہوئے دوران سفر میں جو جو شخص پیچھے رہ جاتا تھا صحابہ کرام نبی ﷺ کو اس کی خبر دیتے تھے اور جواب میں حضور برجستہ فرماتے تھے کہ دعوہ فان یک فیہ خیر فسیلحقہ اللہ بکم وان یک غیر ذٰلک فقد اراحکم اللہ منہ۔ ”جانے دو ، اگر اس میں کچھ بھلائی ہے تو اللہ اسے پھر تمہارے ساتھ لا ملائے گا اور اگر کچھ دوسری حالت ہے تو شکر کرو کہ اللہ نے اس کی جھوٹی رفاقت سے تمہیں خلاصی بخشی“۔ رجب سن 9 ھجری میں نبی ﷺ 30 ہزار مجاہدین کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے جن میں دس ہزار سوار تھے۔ اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس پر گرمی کی شدت اور پانی کی قلت مستزاد۔ مگر جس عزم صادق کا ثبوت اس نازک موقع پر مسلمانوں نے دیا اس کا ثمرہ تبوک پہنچ کر انہیں نقد مل گیا۔ وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ قیصر اور اس کے تابعین نے مقابلہ پر آنے کے بجائے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لی ہیں اور اب کوئی دشمن موجود نہیں ہے کہ اس سے جنگ کی جائے۔ سیرت نگار بالعموم اس واقعہ کو اس انداز سے لکھ جاتے ہیں کہ گویا وہ خبر ہی سرے سے غلط نکلی جو آنحضرت ﷺ کو رومی افواج کے اجتماع کے متعلق ملی تھی۔ حالانکہ دراصل واقعہ یہ تھا کہ قیصر نے اجتماع افواج شروع کیا تھا، لیکن جب آنحضرت ﷺ اس کی تیاریاں مکمل ہونے سے پہلے ہی مقابلہ پر پہنچ گئے تو اس نے سرحد سے فوجیں ہٹا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا۔ غزوہ موتہ میں 3 ہزار اور ایک لاکھ کے مقابلہ کی جو شان وہ دیکھ چکا تھا اس کے بعد اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ خود نبی ﷺ کی قیادت میں جہاں 30 ہزار فوج آ رہی ہو وہاں وہ لاکھ دو لاکھ آدمی لے کر میدان میں آجاتا۔ قیصر کے یوں طرح دے جانے سے جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اس کو نبی ﷺ نے اس مرحلے پر کافی سمجھا اور بجائے اس کے تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے، آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی و حربی فوائد حاصل کرلیں۔ چناچہ آپ نے تبوک میں 20 دن ٹھیر کر ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کے زیر اثر رہی تھیں، فوجی دباؤ سے سلطنت اسلامی کا باجگذار اور تابع امر بنالیا۔ اس سلسلہ میں دومَۃ الجَندَل کے عیسائی رئِس اُکَیدربن عبدالمالک کندی، ایلہ کے عیسائی رئیس یوحنّا بن رُؤبہ، اور اسی طرح مقنا، جَرباء اور اذرح کے نصرانی رؤسا نے بھی جزیہ ادا کر کے مدینہ کی تابعیت قبول کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہ راست رومی سلطنت کی سرحد تک پہنچ گئے اور جن عرب قبائل کو قیاصرہ روم اب تک عرب کے خلاف استعمال کرتے رہے تھے، اب ان کا بیشتر حصہ رومیوں کے مقابلہ پر مسلمانوں کا معاون بن گیا۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سلطنت روم کے ساتھ ایک طویل کشمکش میں الجھ جانے سے پہلے اسلام کو عرب پر اپنی گرفت مضبوط کرلینے کا پورا موقع مل گیا۔ تبوک کی اس فتح بلا جنگ نے عرب میں ان لوگوں کی کمر توڑ دی جو اب تک جاہلیت قدیمہ کے بحال ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے، خواہ وہ علانیہ مشرک ہوں یا اسلام کے پردہ میں منافق بنے ہوئے ہوں۔ اس آخری مایوسی نے ان میں سے اکثر و بیشتر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہنے دیا کہ اسلام کے دامن میں پناہ لیں اور اگر خود نعمت ایمانی سے بہرہ ور نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کی آئندہ نسلیں بالکل اسلام میں جذب ہوجائیں۔ اس کے بعد جو ایک برائے نام اقلیت شرک و جاہلیت میں ثابت قدم رہ گئی، وہ اتنی بےبس ہوگئی تھی کہ اس اصلاحی انقلاب کی تکمیل میں کچھ بھی مانع نہ ہو سکتی تھی جس کے لیے اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا تھا۔ مسائل و مباحث اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنے کے بعد ہم بآسانی ان بڑے بڑے مسائل کا احصاء کرسکتے ہیں جو اس وقت درپیش تھے اور جن سے سورة توبہ میں تعرض کیا گیا ہے (1) اب چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آگیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بےبس ہوچکی تھیں، اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آجانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دارالاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی، چناچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی الف۔ عرب سے شرک کو قطعًا مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تاکہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہوجائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب بن سکے۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براءت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔ ب۔ کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں آجانے کے بعد یہ بالکل نامناسب تھا کہ جو گھر خالص خدا کی پرستش کے لیے وقف کیا گیا تھا اس میں بدستور شرک ہوتا رہے اور اس کی تولِیَت بھی مشرکین کے قبضہ میں رہے۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ کعبہ کی تولیت بھی اہل توحید کے قبضہ میں رہنی چاہیے اور بیت اللہ کے حدود میں شرک و جاہلیت کی تمام رسمیں بھی بزور بند کر دینی چاہییں، بلکہ اب مشرکین اس گھر کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں تاکہ اس بنائے ابراہیمی کے آلودہ شرک ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ ج۔ عرب کی تمدنی زندگی میں رسوم جاہلیت کے جو آثار ابھی تک باقی تھے ان کا جدید اسلامی دور میں جاری رہنا کسی طرح درست نہ تھا اس لیے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی۔ نسی کا قاعدہ ان رسوم میں سب سے زیادہ بدنما تھا اس لیے اس پر براہ راست ضرب لگائی گئی اور اسی ضرب سے مسلمانوں کو بتادیا گیا کہ بقیہ آثار جاہلیت کے ساتھ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ (2) عرب میں اسلام کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دین حق کا دائرہ اثر پھیلا جائے۔ اس معاملہ میں روم و ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سد راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی و تمدّنی نظاموں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کو خود مختارانہ فرماں روائی کو بزور شمشیر ختم کردو تاآنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کرلیں۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائیٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلّط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انہیں اختیار دیا جاسکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں۔ (3) تیسرا اہم مسئلہ منافقین کا تھا جن کا ساتھ اب تک وقتی مصالح کے لحاظ سے چشم پوشی و درگذر کا معاملہ کیا جا رہا تھا۔ اب چونکہ بیرونی خطرات کا دباؤ کم ہوگیا تھا بلکہ گویا نہیں رہا تھا اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کی جائے اور وہی سخت برتاؤ ان چھپے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہو جو کھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ چناچہ یہی پالیسی تھی جس کے مطابق نبی ﷺ نے غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں سویلم کے گھر میں آگ لگوا دی جہاں منافقین کا ایک گروہ اس غرض سے جمع ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو شرکت جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرے، اور اسی پالیسی کے تحت تبوک سے واپس تشریف لاتے ہی نبی ﷺ نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد ضرار کو ڈھانے اور جلا دینے کا حکم دے دیا۔ (4) مومنین صادقین میں اب تک جو تھوڑا بہت ضعف عزم باقی تھا اس کا علاج بھی ضروری تھا، کیونکہ اسلام عالمگیر جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا اور اس مرحلہ میں، جبکہ اکیلے مسلم عرب کو پوری غیر مسلم دنیا سے ٹکرانا تھا، ضعف ایمان سے بڑھ کر کوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لیے نہ ہوسکتا تھا۔ اس لیے جن لوگوں نے تبوک کے موقع پر سستی اور کمزوری دکھائی تھی ان کو نہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی، پیچھے رہ جانے والوں کے اس فعل کو کہ وہ بلاعذر معقول پیچھے رہ گئے بجائے خود ایک منافقانہ طرز عمل، اور ایمان میں ان کے ناراست ہونے کا ایک بین ثبوت قرار دیا گیا، اور آئندہ کے لیے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کردی گئی کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور کفر و اسلام کی کشمکش ہی وہ اصلی کسوٹی ہے جس پر مومن کا دعوائے ایمان پرکھا جائے گا۔ جو اس آویزش میں اسلام کے لیے جان و مال اور وقت و محنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کا ایمان معتبر ہی نہ گا اور اس پہلے کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہو سکے گی۔ ان امور کر نظر میں رکھ کر سورة توبہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے تمام مضامین بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ سورة التَّوْبَة 1 جیسا کہ ہم سورة کے دیباچہ میں بیان کرچکے ہیں، یہ خطبہ رکوع 5 کے آخر تک سن 9 ھجری میں اس وقت نازل ہوا تھا جب نبی ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کو حج کے لیے روانہ کرچکے تھے۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابہ کرام نے حضور سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ حج میں اس کو سنا دیں۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے کسی آدمی کو کرنا چاہیے۔ چناچہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اس خدمت پر مامور کیا، اور ساتھ ہی ہدایت فرمادی کہ حاجیوں کے مجمع عام میں اسے سنانے کے بعد حسب ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کردیں (1) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہوگا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ (2) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ (3) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے۔ (4) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا معاہدہ باقی ہے، یعنی جو نقض عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مدت معاہدہ تک وفا کی جائے گی۔ اس مقام پر یہ جان لینا ضروری بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج سن 8 ھجری میں قدیم طریقے پر ہوا۔ پھر سن 9 ھجری میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر۔ اس کے بعد تیسرا حج سن 10 ھجری میں خالص اسلامی طریقہ پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ نبی ﷺ پہلے دو سال حج کے لیے تشریف نہ لے گئے۔ تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہوگیا تب آپ ﷺ نے حج ادا فرمایا۔ سورة التَّوْبَة 2 سورة انفال آیت 58 میں گزر چکا ہے کہ جب تمہیں کسی قوم سے خیانت (نقض عہد اور غدّاری) کا اندیشہ ہو تو علی الاعلان ان کا معاہدہ اس کی طرف پھینک دو اور اسے خبردار کردو کہ اب ہمارا تم سے کوئی معاہدہ باقی نہیں ہے۔ اس اعلان کے بغیر کسی معاہد قوم کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردینا خود خیانت کا مرتکب ہونا ہے۔ اسی ضابطہ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کا یہ اعلان عام ان تمام قبائل کے خلاف کیا گیا جو عہد و پیمان کے باوجود ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے، اور موقع پاتے ہی پاس عہد کو بالائے طاق رکھ کر دشمنی پر اتر آتے تھے۔ یہ کیفیت بنی کنانہ اور بنی ضمرہ اور شاید ایک آدھ اور قبیلہ کے سوا باقی تمام ان قبائل کی تھی جو اس وقت تک شرک پر قائم تھے۔ اس اعلان براءت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملًا خلاف قانون (Outlaw) ہوگیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم وفارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو، یا نبی ﷺ وفات پاجائیں تو یکایک نقض عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کردیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے ان کی ساعت منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر الٹ دی اور اعلان براءت کر کے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اس نظم و ضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کرچکا تھا۔ اس عظیم الشان تدبیر کی پوری حکمت اسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ہم اس فتنہ ارتداد کو نظر میں رکھیں جو اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہی نبی ﷺ کی وفات پر ملک کے مختلف گوشوں میں برپا ہوا اور جس نے اسلام کے نو تعمیر قصر کو یکلخت متزلزل کردیا۔ اگر کہیں سن 9 ھجری کے اس اعلان براءت سے شرک کی منظم طاقت ختم نہ کردی گئی ہوتی اور پورے ملک پر اسلام کی قوت ضابطہ کا استیلاء پہلے ہی مکمل نہ ہوچکا ہوتا، تو ارتداد کی شکل میں جو فتنہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے آغاز میں اٹھا تھا اس سے کم از کم دس گنی زیادہ طاقت کے ساتھ بغاوت اور خانہ جنگی کا فتنہ اٹھتا اور شاید تاریخ اسلام کی شکل اپنی موجودہ صورت سے بالکل ہی مختلف ہوتی۔
Top