Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
ان مشرکین سے اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان براءت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے
بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ۔ فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ۔ لفظ براءۃ کا مفہوم : براءۃ من اللہ الایہ : براءۃ کے معنی کسی ذمہ داری سے دستبردار اور بری الذمہ ہونے کے ہیں۔ یہاں یہ ان معاہدات کی ذمہ داری سے دستکش ہونے کے معنی میں ہے جو آنحضرت ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد مشرکین عرب کے مختلف قبائل سے موقت اور غیر موقت نوعیت کے کرلیے تھے۔ ‘ مشرکین ’ سے یہاں بھی اور قرآن میں جہاں جہاں بھی یہ لفظ بشکل علم استعمال ہوا ہے۔ مشرکین بنی اسماعیل یا بالفاظ دیگر مشرکین عرب مراد ہیں۔ ان کے معاہدات کی ذمہ داری سے اس اعلان براءت کی وجہ آگے آیت 3 سے واضح ہوتی ہے کہ بہت سے قبائل نے معاہدات کرنے کو تو کرلیے تھے لیکن ان کو وفاداری اور راستبازی کے ساتھ نباہ نہیں رہے تھے اس وجہ سے اس قسم کے معاہدوں کے کالعدم ہونے کا اعلان کردیا گیا، صرف ان قبائل کے معاہدے باقی رکھے گئے جنہوں نے کوئی عداری یا عہد شکنی نہیں کی تھی اور وہ بھی صرف ان کی قرار دادہ مدت تک کے لیے لفظ براءۃ کے بعد حرف الی جو آیا ہے یہ دلیل ہے اس بات پر کہ یہاں ابلاگ کا مفہوم بھی مضمر ہے۔ یعنی اس دستبرداری کی اطلاع تمام ناقض عہد مشرکین کو پہنچا دی جائے چناچہ بعد والی آیت میں اس کی تصریح بھی آرہی ہے۔ ایک قابل توجہ نکتہ : یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ جہاں تک معاہدہ کرنے کا تعلق ہے اس کی ذمہ داری تو اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ عاھدتم کے لفظ سے واضح ہے تمام سلمانوں پر ڈالی ہے اس لیے کہ پیغمبر کی اٹھاتی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے لیکن براءت ذمہ کے معاملے میں مسلمانوں کی ذمہ داری معین نہیں فرمائی ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اس سے اس اعلان براءت کی شدت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ و رسول تو ان بودے معاہدوں سے بری ہوئے۔ اب اہل ایمان خود فیصلہ کریں کہ انہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اللہ و رسول کا ساتھ دے کر اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہے یا عزیز داری، برادری اور خاندان و قبیلہ کی پاسداری میں نفاق کی روش اختیار کرنی ہے۔ بات کے اس انداز سے کہنے میں مصلحت یہ تھی کہ پس منظر میں، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے، منافقین بھی تھے جو ابھی اپنے خاندانی و قبائلی بندھنوں سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے۔ ان لوگوں پر اس اسلوب سے یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ اللہ اور رسول کی طرف سے یہ فیصلہ قطعی ہے، اس میں کسی لچک کا امکان نہیں ہے، جس کو اس کا ساتھ دینا ہو، ساتھ دے ورنہ اپنی راہ اور اپنی منزل کا خود فیصلہ کرے۔
Top