Mualim-ul-Irfan - Hud : 50
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : قوم عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارا نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر (صرف) مُفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے ہو
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو رسول بنا کر بھیجا (انہوں نے اپنی قوم کے سامنے اس طرح تقریر کی) کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو ، نہیں ہے تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود۔ نہیں ہو تم مگر افتراء باندھنے والے
ربط آیات اپنی توحید کو بیان کرنے ، اپنے پیغمبر آخر الزمان کو تسلی دینے اور صبر کا قانون سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورة ہود میں بعض سابقہ انبیاء کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ سورة حضرت ہود (علیہ السلام) کے نام پر ہی موسوم ہے۔ آج کے درس میں آپ ہی کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ آپ کی دعوت کے جواب میں آپ کی قوم کی نافرمانی اور کفر اور شرک کا تذکرہ ہے اور پھر ان کا حشر بھی بیان کیا گیا ہے۔ اللہ نے اس قوم کو عبرتناک سزا دی۔ پہلے نوح (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا ذکر تھا ، اب ہود (علیہ السلام) اور ان کی تقریر اور نصیحت کا کچھ حصہ ان آیات میں بیان کیا جارہا ہے۔ پھر آگے قوم کا جواب آئے گا اور آخر میں ان پر نازل ہونے والے عذاب کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو نزول قرآن اور بعد کے زمانے والے لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا ہے۔ ہود (علیہ السلام) اور آپ کی قوم ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والی عاد اخاھم ھودا “ اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ اس آیت کا عطف حضرت نوح کے واقعہ کی ابتدائی آیت (آیت) ” ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ “ کے ساتھ ہے۔ جس طرح ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا اس طرح ہود (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ قوم عاد پرانی قوموں میں سے مشہور قوم ہے جس کا ذکر قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں ملتا ہے۔ یہ قوم سام ابن نوح کی اولاد میں سے ہے اور ہود (علیہ السلام) بھی اسی قوم کے فرد تھے۔ قوم عاد کے لوگ جسمانی طور پر بڑے مضبوط تھے وہ خود کہتے تھے (آیت) ” من اشد منا قوۃ “ (حم سجدہ) ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے اس کے علاوہ یہ لوگ بہت زیادہ متکبر تھے جس کا ذکر سورة شعراء میں موجود ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اور اس کے بعد والی قوموں میں پائی جانے والی کفر وشرک کی بیماری قوم عاد میں بھی پائی جاتی تھی۔ بہرحال ہود (علیہ السلام) کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا آپ کا شجرہ نسب ہود انب عبداللہ ابن رباح اور پھر آخر میں سام ابن نوح سے جا ملتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج حاصل ہوا ، وہ قوم عاد تھی۔ یہ قوم جنوبی عرب میں یمن اور اس کے اطراف ، حضر موت ، مکلہ ، عمان اور خلیج فارس کے بہت بڑے حصے پر آباد تھی اور دوسری طرف مصر تک ان کو اقتدار حاصل تھا تا ہم ان کا پایہ تخت یمن تھا۔ عربی زبان میں عادی پرانی چیز کو کہتے ہیں جیسے عادی الارض (بنجر زمین) یا شیء عادی (پرانی چیز) چونکہ یہ پرانے لوگ ہیں اس لیے ان کا نام عاد پڑگیا۔ باقی رہی یہ بات کہ ان کا زمانہ عروج کون سا ہے۔ تو اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کے دو سو سال بعد اس قوم کو عروج حاصل ہوگیا تھا مگر یہ بات زیادہ قرین قیاس نہیں بعض ان کا زمانہ عروج نوح (علیہ السلام) کے نو سال بعد بتاتے ہیں۔ البتہ امام جلال الدین سیوطی مفسر قرآن کی رائے مختلف ہے۔ آپ کی تصانیف کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے جن میں تفسیر حدیث ، تاریخ اور دیگر فنون شامل ہیں۔ آپ اپنی مشہور زمانہ دو جلدوں پر مشتمل تاریخ کی کتاب ” حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرۃ “ میں لکھتے ہیں کہ ہود (علیہ السلام) کی بعثت مصر ابن بیصر بادشاہ کے زمانے میں ہوئی اور یہ بادشاہ طوفان نوح کے 2600 سال بعد برسراقتدار تھا۔ صابی مذہب مصر ابن بیصر کا زمانہ حکومت 480 برس ہے جب کہ ہود (علیہ السلام) کی عمر مبارک 464 سال تھی۔ کہتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) سے پہلے ایک صابی دور گزرا ہے ، جس کے چار مشہور اصول توحید ، طہارت ، نماز اور روزہ تھے ، ابتداء میں یہ مذہب بھی ٹھیک تھا مگر بعد میں لوگوں نے اس میں بگاڑ پیدا کردیا۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اصل مذہب تو سارے ہی درست تھے حتی کہ زرتشت مذہب بھی ٹھیک تھا مگر بعد میں مجوسیوں نے اس کو بگاڑ کر ستارہ پرستی کی طرف موڑ دیا۔ یہود ونصاری کا بھی یہ حال ہے۔ اصل مذہب اپنے زمانہ میں حق پر تھے مگر بعد میں آنے والون نے ان کو بالکل مسخ کردیا۔ بہر حال صابی مذہب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ تک چلتا رہا۔ پھر آپ کے زمانہ میں توحید کا تصوربالکل ختم ہوگیا۔ حضور ﷺ کی بعثت کے وقت بھی توحید خالص ختم ہوچکی تھی۔ گذشتہ پانچ سو سال میں دین کا حلیہ بگڑ چکا تھا اور توحید کا تصور ایک فیصد بھی باقی نہیں رہا تھا آپ کے زمانہ بعثت میں توحید کا تصور رکھنے والے چند آدمیوں کا ذکر ملتا ہے ، وگرنہ سارے کے سارے شرک میں مبتلا ہوچکے تھے۔ اہرام مصر ؎ امام جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ مصر کے سہ گوشہ مینار بہت پرانے زمانے کے بنے ہوئے ہیں جن میں قوم عاد کا زمانہ بھی شامل ہے فرماتے ہیں کہ ان میں سے دو مینار تو نوح (علیہ السلام) سے بھی پہلے کے ہیں اور ان کے نیچے حضرت شیث (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کی قبریں ہیں ، اور باقی میناروں کے نیچے فراعین کی قبور ہیں۔ یہ سہ گوشہ مینار بڑے بڑے پتھر جوڑ کر نہایت پر پیچ طریقہ سے بنائے گئے ہیں ، ساڑھے چھ ہزار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ مینار قائم ہیں۔ آج کا انسان انہیں دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ اتنے وزنی پتھر ایک دوسرے کے اوپر کن ذرائع کے ساتھ رکھے گئے جب کہ اس وقت کوئی مشینری یا کرین وغیرہ بھی نہیں تھی ، پھر ان پتھروں کو جوڑنے کے لیے عجیب و غریب مسالہ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے ابھی تک شکستگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے ان میں سب سے بڑا مینار چار سو فٹ سے بھی زیادہ بلند ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی طاقت عطا فرمائی تھی کہ اتنے بڑے بڑے کام انجام دیتے تھے۔ قوم عاد کا مسکن عرب کے ربع خالی میں وادی دہنا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی حصے میں ہزاروں میل کا خطہ بےآباد ریگستان ہے جب وہاں پر ہوائیں چلتی ہیں تو ریت کے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہاں پر ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں۔ پہاڑوں جتنے برے ٹیلے دیکھتے ہی دیکھتے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ان کی زد میں آنے والے قافلے بمع اونٹ اور سازوسامان سرخ وسفید ریت کے پہاڑوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ قوم عاد یہیں آباد تھی۔ تفسیر حقانی والے لکھتے ہیں کہ قوم عاد کے لوگ عمارات کی تعمیر میں بڑا کمال رکھتے تھے ان کا بنایا ہوا ایک ایک مکان سات سات منزلہ ہوتا اور ہر منزل کے درمیان چالیس گز کی مسافت ہوتی۔ اس قسم کی بعض عمارات حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت تک موجود تھیں۔ بہرحال یہی وہ قوم عاد تھی جس کی طرف اللہ نے ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ اخوت کی مختلف صورتیں اخوت کی مختلف صورتیں ہیں۔ حقیقی بھائی تو وہ ہوتے ہیں جو نسل اور خاندان کے اعتبار سے بھائی ہوتے ہیں ، تا ہم کسی ایک دین کے پیروکار دینی بھائی بھی ہوتے ہیں۔ جیسے خود مومنوں کے متعلق قرآن پاک میں ہے (آیت) ” انما المومنون اخوۃ “ (الحجرات) سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس لیے اگر ایک مومن خود کو دوسرے سے برتر سمجھتا ہے تو وہ شیطان کا مرید ہے کیونکہ دین میں کوئی اونچ نیچ نہیں بلکہ سارے مسلمان برابر ہیں۔ پھر زبان کے لحاظ سے بھی اخوت ہوتی ہے۔ ہم زبان بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں قومیتوں کی بنیاد وطن پر ہے۔ اس لیے کسی ایک ملک کے باشندے رشتہ اخوت میں منسلک ہوتے ہیں۔ ذرائع نقل وحمل کی فراوانی کی وجہ سے آجکل دنیا بھر کا سفر نہایت آسان ہے۔ جب کسی ایک ملک کا باشندہ دوسرے ملک میں جاتا ہے تو وہ اپنی ملکی قومیت کے اعتبار سے پہچانا جاتا ہے جیسے فلاں پاکستانی ہے اور فلان ہندی ، ملائی ، امریکن یا جرمن ہے۔ پاسپورٹ پر بھی شہریت کا اندراج ملکی اعتبار سے ہی ہوتا ہے اگرچہ ایک ملک میں کئی صوبے ہوتے ہیں اور کئی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر قومیت ایک ہی ہوتی۔ یہاں پر ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی نسلی اعتبار سے کہا گیا ہے۔ آپ انہی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اگرچہ آپ اللہ کے رسول تھے اور ساری قوم کافر تھی۔ اس دینی تفاوت کے باوجود وہ نسلی اعتبار سے بھائی تھے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب رکھنے کے باوجود لوگ ایک ہی خاندان اور برادری سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلا ہمارے رجپوت مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ ان کا جد امجد ایک ہی تھا۔ پھر خواجہ فرید الدین گنج شکر (رح) کی تبلیغ سے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے اور دوسرے ہندو ہی رہے ، چناچہ آج بھی ہندوستان میں ہندو راجپوتوں کی بڑی آبدی موجود ہے۔ بہرحال ہود (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ اخوت نسلی اعتبار سے بھی تھی اور لسانی لحاظ سے بھی ، کیونکہ وہ سب عربی زبان بولتے تھے اور قدیم عرب کہلاتے ہیں۔ یہ عرب بائدہ کہلاتے ہیں جو اللہ کے عذابوں کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئے۔ دوسرے نمبر پر قحطائی نسل آتی ہے اور ان کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان بولنے والا تیسرا خاندان بنی جرہم ہے جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ یاد رہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) عربی زبان بولتے تھے جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان عبرانی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سریانی تھی۔ ہود (علیہ السلام) کی دعوت توحید فرمایا ہم نے ہود (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا انہوں نے اپنی قوم کو جو وعظ ونصیحت اور تقریر کی اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں محفوظ کردیے ہیں۔ انہوں نے کہا (آیت) ” قال یقوم اعبدوا اللہ “ اے میری قوم کے لوگوں اللہ کی عبادت کرو (آیت) ” مالکم من الہ غیرہ “ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں۔ کوئی مشکل کشا ، حاجت روا اور مافوق الاسباب متصرف نہیں۔ قادر مطلق ، علیم کل ہمہ دان ، ہمہ بین اور ہمہ تو ان دہی ہے ، لفظ الٰہ میں یہ ساری چیزیں آجاتی ہیں۔ جیسا کہ سورة اعراف کی آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے مختلف معبود بنا رکھے تھے ، کوئی بیماری سے شفا کے لیے کوئی مقدمہ سے بری کرانے کے لیے ، کوئی رزق فراہم کرنے والا اور کوئی اولاد دینے والا۔ اسی بناء پر وہ ان کی دہائی دیتے تھے ، ان کے سامنے رکوع و سجود کرتے تھے اور ان سے حاجتیں طلب کرتے تھے ، مگر حقیقت میں کچھ نہیں تھا۔ اس زمانے میں بھی لوگ اپنی حاجات کے لیے مختلف معبودوں کی حاضری دیتے ہیں۔ بیماری سے شفاء کے لیے فلاں قبر پر جاء اور اولاد کے لیے فلاں مزار پر منت مانو۔ اگر ملازمت کی ضرورت ہو تو فلاں کی چلتی ہے اور مال و دولت چاہیے تو فلاں قبر کا چلہ کاٹو۔ توحید کا مسئلہ اللہ تعالیٰ نے سورة ہذا کی ابتدائی آیت میں ہی بیان کردیا تھا (آیت) ” الا تعبدوا الا اللہ “ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ حضور ﷺ کی تبلیغ کا لب لباب بھی یہی تھا اور ہود (علیہ السلام) نے بھی قوم کو یہ سبق دیا۔ لوگو ! اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی الہ نہیں۔ (آیت) ” ان انتم الا مفترون “ تم تو افتراء باندھنے والے ہو۔ اللہ کے علاوہ اپنی حاجات میں دوسروں کو پکارنا ہی شرک اور افترا علی اللہ ہے۔ پیچھے گزر چکا ہے (آیت) ” فتعلی اللہ عما یشرکون “ اللہ تعالیٰ کی ذات ان چیزوں سے پاک ہے جن کو یہ خدا کا شریک بناتے ہیں اور پھر مختلف طریقوں سے ان کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ شرک کی بنیاد امام محمد ابن عمر رازی (رح) ایران کے علاقے رے کے رہنے والے تھے آپ محمد غوری کے زمانے میں ہوئے ہیں اور آپ کی وفات 606 ھ؁ میں ہوئی ۔ آپ عظیم عالم باپ کے بیٹے تھے ، اولاد بھی عالم فاضل تھی۔ آپ نے تفسیر کبیر کے حوالے سے شہرت پائی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ہندوستان کا سفر بھی کیا۔ وہاں میں نے کسی کو خدا تعالیٰ کی ذات میں شریک بناتے نہیں سنا۔ سب یہی کہتے تھے کہ واجب الوجود صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے وجود میں کوئی شریک نہیں مگر عبادت میں آکر اللہ کے شریک ٹھہرا لیتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) بھی فرماتے ہیں۔ کہ توحید کے دو درجات تو سارے مشرک بھی تسلیم کرتے ہیں ، یعنی واجب الوجود صرف اللہ ہے ، اور خالق بھی وہی ہے۔ مگر جب عبادت کی باری آتی ہے تو اس میں غیروں کو بھی شریک کرنے لگتے ہیں اس کے علاوہ صفات میں بھی پھسلتے ہیں۔ اللہ کی صفات بندوں میں ثابت کی جائیں یا بندوں کی صفات اللہ میں مانی جائیں تو یہ شرک فی الصفات ہوگیا۔ اسی طرح خدا کے لیے اولاد کی صفت ثابت کرنا عقیدہ تشبیہ ہے جو کہ کفر ہے۔ اللہ کی صفات بندوں میں اس طرح ثابت کی جاتی ہیں کہ فلاں بھی سب کچھ جانتا ہے اور جو چاہے کرسکتا ہے ، وہ ہمارے دل کی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ اسی طرح اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے۔ مگر یہ صفت غیروں میں بھی ثابت کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ نبی اور ولی بھی حاضر ناظر ہیں اور یہی شرک ہے۔ عبادت میں شرک یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی غیر کی انتہائی تعظیم اس نیت کے ساتھ کی جائے کہ اس ہستی کو مافوق الاسباب تصرف حاصل ہے۔ اس کو نافع اور ضار سمجھا جاتا ہے اس کے سامنے رکوع و سجود کیا جاتا ہے ، اس کے نام کی نیاز دی جاتی ہے ، اس کا نام کا ورد کیا جاتا ہے اور اس کے سامنے مناجات پیش کی جاتی ہے یہ سب عبادت ہے کوئی قولی ، کوئی فعلی اور کوئی مالی۔ ہود (علیہ السلام) نے قوم سے یہ فرمایا (آیت) ” یقوم لا اسئلکم علیہ اجرا “ اے میری قوم کے لوگو ! میں اپنی اس تبلیغ کا تم سے کوئی بدلہ طلب نہی کرتا۔ (آیت) ” ان اجری الا علی الذین فطرنی “ میرا اجر تو اس ذات کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ میرے کام کی مزدوری وہی دے گا (آیت) ” افلا تعقلون “ کیا تم اتنی عقل بھی نہیں رکھتے۔ استغفار کی برکات حضرت ہود (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا (آیت) ” ویقوم استغفروا ربکم “ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ سے معافی طلب کرو۔ (آیت) ” ثم توبوا الیہ “ پھر اس کے سامنے توبہ کرو۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ استغفار صابن کی طرح روح کی میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور تسبیح وتہلیل بمنزلہ خوشبو ہے۔ چونکہ لوگوں سے اکثر گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ بہتر لوگ وہی ہیں جو معافی مانگتے رہتے ہیں۔ اور توبہ کرتے رہتے ہیں۔ خود حضور ﷺ ایک ایک مجلس میں سو سو مرتبہ اپنی زبان سے استغفار کے کلمات ادا فرماتے تھے کہ اے اللہ جو غلطی ہوگئی ہے اسے معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اس کے سامنے توبہ کرنا مومن کی سات منزلوں میں سے پہلی منزل ہے سورة توبہ میں یہ سات منزلیں گزرچکی ہیں (آیت) ” التائبون العبدون الحمدون السائحون الرکعون السجدون الامرون بالمعروف والناھون عن المنکر والحفظون لحدود اللہ “ مفسرین فرماتے ہیں کہ جب اس قوم نے نافرمانی کی تو تین سال تک بارش بند رہی اور اس عرصہ میں عورتیں بھی بانجھ ہوگئیں ، کوئی بچہ پیدا نہی ہوا ، تو ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ لوگو ! استغفار اور توبہ کرو ، جس کے نتیجے میں (آیت) ” یرسل السماء علیکم مدرارا “ اللہ تعالیٰ آسمان کو تم پر بارش برسانے کے لیے چھوڑ دیگا۔ قحط سالی دور ہو جائیگی (آیت) ” ویزدکم قوۃ الی قوتکم “ اللہ تعالیٰ تمہیں جسمانی قوت کے ساتھ قوت عطا کریگا۔ تمہاری طاقت میں اضافہ ہوجائے گا اور اولاد بھی ہونے لگے گی (آیت) ” ولا تتولوا مجرمین “ تم مجرم بن کر پشت نہ پھیرو۔ ہود (علیہ السلام) کی تقریر کا یہ پہلا حصہ ہے جو آپ نے قوم کے سامنے پیش کیا۔
Top