Tafseer-al-Kitaab - An-Nahl : 35
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ عَبَدْنَا : ہم پرستش کرتے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوائے مِنْ شَيْءٍ : کوئی۔ کسی شے نَّحْنُ : ہم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا حَرَّمْنَا : اور نہ حرام ٹھہراتے ہم مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے (حکم کے) سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی شے كَذٰلِكَ : اسی طرح فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَهَلْ : پس کیا عَلَي : پر (ذمے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم بغیر اس کے (حکم کے) کسی چیز کو (اپنے جی سے) حرام ٹھہرا لیتے۔ ایسے ہی (حیلے حوالے) ان سے پہلے بھی لوگ کرتے رہے ہیں۔ پھر (بتلاؤ) پیغمبروں پر صاف صاف (پیغام حق) پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے ؟
[19] مشرکین کہتے تھے کہ اللہ کو اگر ہمارے طریقے ناپسند ہیں تو ہمیں ان چیزوں پر قدرت ہی کیوں دی، کیوں نہ ہمیں روک دیا ؟ یہ احمق اللہ کی مشیت اور اس کی رضا کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں کرتے تھے۔ خود ان کے عقائد کی رو سے بھی تو اللہ کو کچھ چیزیں پسند ہیں اور کچھ ناپسند، تو وہ اپنی ناپسندیدہ چیزوں کو واقع ہی کیوں ہونے دیتا ہے۔ [20] یعنی اللہ کے رسول اس لئے نہیں آتے کہ لوگوں سے برائی کرنے کی طاقت سلب کرلیں اور انھیں ایسا بنادیں کہ وہ برائی کر ہی نہ سکیں جب کہ اللہ کی مشیت یہی ہوئی کہ انسان کو کسی ایسی حالت پر مجبور نہ کیا جائے بلکہ ہر طرح کی حالت اختیار کرنے کی قدرت دی جائے۔
Top